مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-6685
تاریخ اجراء: 16رجب
المرجب1442ھ28فروری2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کئی
علماء دورانِ تقریر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےیہ
الفاظ استعمال کرتے ہیں’’معراج کے دُلہا‘‘تو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کو ’’معراج کے دُلہا‘‘ کہنا
کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’معراج کے دُلہا‘‘ کہنا شرعاًجائز ہے ۔تفصیل اس
بارے میں یہ ہے کہ یہاں لفظِ ’’دُلہا‘‘اپنے حقیقی
معنی یعنی اس معنی میں نہیں کہ وہ شخص جس
کی شادی ہو،بلکہ یہاں فقط تشبیہ مقصود ہےکہ جس طرح دُلہا کو شان و شوکت کے ساتھ باراتی لے
کرجاتے ہیں،سب کی نگاہوں کا مرکز وہی ہوتا ہے،سب اس کے
چاہنےوالےاوراسی کی تعظیم و اطاعت میں مصروف ہوتے
ہیں اوراسی کے صدقے طرح طرح کی نعمتیں پاتے
ہیں۔بالکل اسی طرح ،بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر شان و شوکت کے
ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروائی گئی،جس
کی تفصیل کتبِ تفاسیر،احادیث اور سیرت وغیرہ
میں دیکھی جا سکتی ہے،لہذا اس معنی میں حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو’’معراج کے دُلہا‘‘کہنابلاشبہ جائز ہےاور اس
معنی میں مختلف چیزوں کو دُلہا اور دُلہن کے ساتھ تشبیہ
دینے کا ثبوت کئی احادیث سے بھی ہے۔
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو’’دُلہا‘‘ کہنے کے حوالے سے تفصیلی کلام
کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’چار اشعار میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کو دلہا کہا ہے اور وہ بیشک تمام سلطنت الٰہی
کے دلہاہیں۔
امام قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں نقل فرماتے ہیں:’’انہ صلی ﷲ
تعالٰی علیہ وسلم رأی صورۃ ذاتہ المبارکۃ
فی الملکوت،فاذاھو عروس المملکۃ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے شب معراج عالم ملکوت
میں اپنی ذات مبارکہ کی تصویر ملاحظہ فرمائی، تو
دیکھا کہ حضور تمام سلطنت الہٰی کے دلہا ہیں ۔
دلائل
الخیرات شریف میں ہے:’’اللھم صلی علی
محمد وعلی اٰلہ بحر انوارک ومعدن اسرارک ولسان حجتک وعروس مملکتک‘‘ترجمہ:الٰہی
درود بھیج محمد صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم اور ان کی آل پر ،جو تیرے انوار کے دریا اور
تیرے اسرارکے معدن اور تیری حجت کی زبان اور
تیری سلطنت کے دلہا ہیں۔
علامہ
محمد فاسی اس کی شرح مطالع المسرات میں فرماتے ہیں:مملکتک ھو موضع الملک شبہ
بمجتمع العرس ومافیہ من الاحتقال والتناھی فی الصنیع
والتانق فی محسناتہ وترتیب امورہ وکونہ جدیداظریفا واھلہ
فی فرح وسرور نعمۃ وحبور فرحین بعروسھم،راضین بہ،محبین،مکرمین
لہ، موتمرین لامرہ، متنعمین لہ بانواع المشتھیات ،بدلیل
اثبات اللازم الذی ھو العروس، والمعھود
تشبیہ مجتمع العرس بالمملکۃ وعکس التشبیہ ھنا،لاقتضاء المقام
ذلک،لیفید ان سرالمملکۃ ونکتتھا ومعناھا الذی لاجلہ کانت
ھو المصطفی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم،کما ان
سرمجتمع العرس ونکتتہ ومعناہ الذی لاجلہ کان ھوالعروس والمصطفی
صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ھوالانسان الکبیر
الذی ھوالخلیفۃ علی الاطلاق فی الملک والملکوت قد
خلعت علیہ اسرار الاسماء والصفات ومکن من التصرف فی البسائط والمرکبات
والعروس یحاکی شانہ شان الملک والسلطان فی نفوذ الامر
وخدمۃ الجمیع لہ وتفرغھم لشانہ ووجدانہ مایجب
ویشتھی مع الرای واصحابہ فی مؤنتہ وتحت اطعامہ فتم
التشبیہ وتمکنت الاستعارۃ‘‘اس عبارت سراپا بشارت کا خلاصہ یہ ہے
کہ امام محمد بن سلیمان جزولی قدس سرہ الشریف نے اس درود مبارک
میں سلطنت کو بارات کے مجمع سے تشبیہ دی کہ اس میں
کیسا اجتماع ہوتاہے اوراس کی آرائشیں انتہاء کو پہنچائی
جاتی ہیں، سب کام قرینے سے ہوتے ہیں، ہر چیز
نئی اور خوش آئند ،لوگ اپنے دلہا پر شاداں وفرحاں ،اسے چاہنے والے، اس
کی تعظیم واطاعت میں مصروف، اس کے ساتھ قسم قسم کی من
مانتی نعمتیں پاتے ہیں اور عادت یوں ہے کہ بارات کے مجمع
کو سلطنت اور دلہا کو بادشاہ سے تشبیہ دیتے ہیں، یہاں اس
کا عکس کیا کہ سمجھا جائے کہ جس طرح بارات کے مجمع کا مغز وسبب دلہا ہوتاہے،
یونہی تمام مملکت الٰہی کے وجود کا سبب اوراس کے اصل راز
ومغز ومعنی صرف مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
ہیں۔۔
اس
لیےکہ حضورتمام ملک وملکوت پر اللہ عزوجل کےنائب مطلق ہیں،جن کو رب
عزوجل نے اپنےاسماء وصفات کے اسرار کا خلعت پہنایا اور ہرمفرد ومرکب میں
تصرف کا اختیار دیاہے، دلہا بادشاہ کی شان دکھاتا ہے، اس کا حکم
بارات میں نافذ ہوتاہے، سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے کام
چھوڑ کر اس کے کام میں لگے ہوتے، جس بات کو اس کا جی چاہے موجود
کی جاتی ہے، چین میں ہوتاہے، سب باراتی اس کی
خدمت میں اور اس کے طفیل میں کھانا پاتے ہیں، یونہی
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بادشاہ حقیقی عزوجل
کی شان دکھاتے ہیں، تمام جہاں میں ان کا حکم نافذ ہے، سب ان کے خدمت
گار وزیر فرمان ہیں، جو وہ چاہتے ہیں اللہ عزوجل موجود
کردیتاہے’’ماارٰی ربک الا یسارع فی ھواک‘‘صحیح
بخاری کی حدیث ہے کہ ام المومنین صدیقہ رضی
اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے
عرض کرتی ہیں: میں حضور کے رب کو دیکھتی ہوں کہ حضور
کی خواہش میں شتابی(جلدی) فرماتاہے۔تمام جہاں حضور
کےصدقہ میں حضور کا دیا کھاتاہےکہ’’انما انا قاسم وﷲ
المعطی‘‘صحیح
بخاری کی حدیث ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر نعمت کو دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے
والا میں ہوں۔ یوں تشبیہ کامل ہوئی اور حضور اقدس
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سلطنتِ الٰہی کے دلہا
ٹھہرے۔والحمدللہ
رب العالمین
ان تقریرات سے واضح
ہوا کہ ان معانی پر دلہن، دلہا، زوج، زوجہ کی طرح باہم مفہوم متضائف
نہیں۔۔
مگر حدیثیں تو
اس سے بڑھ کر اوہام باطلہ والوں پر قہر ڈھائیں گی۔ حاکم
صحیح مستدرک اور امام الائمہ ابن خزیمہ اپنی صحیح اور
بیہقی سنن میں حضرت ابو موسٰی اشعری
رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ان ﷲ تعالٰی
یبعث الایام یوم القیمۃ علی ھیاتھا
ویبعث یوم الجمعۃ زھراء منیرۃ اھلھا یحفون
بھا،کالعروس تھدی الی کریمھا‘‘ترجمہ:بیشک اللہ
عزوجل قیامت کے دن سب دنوں کو ان کی شکل پر اٹھائے گا اورجمعہ کے دن کو
چمکتا اورروشنی دیتاہوا، جمعہ پڑھنے والے اس کے گرد جھرمٹ کیے
ہوئے ہوں گے،جیسے دُلہن کواس کے کریم شوہر کی جانب رخصت
کیاجاتا ہے۔
امام اجل ابو طالب مکی قوت القلوب اور
حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء میں فرماتے ہیں:’’ قال صلی ﷲ
تعالٰی علیہ وسلم:ان الکعبۃ تحشر کالعروس المزفوفۃ‘‘ترجمہ:حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
بیشک کعبہ روز قیامت یوں اٹھایا جائے گا،جیسے شب
زفاف دلہن کو دلہا کی طرف لے جاتے ہیں۔ (فتاوی رضویہ،ج15،ص 285تا288،رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
نوٹ:اس بارے میں
مزید تفصیلی دلائل جاننے کےلیے فتاوی
رضویہ،جلد15 سےصفحہ 283تا291کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟