Hazrat Ali Aur Imam Hussain رضی اللہ عنھما Ke Naam Ke Sath علیہ السلام likhna

حضرت علی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنھما کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1867

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1445ھ/03اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   علیہ السلام کا مطلب ہے ان پر سلامتی ہو  تو  پھر حضرت علی یا حضرت حسین رضی اللہ عنھما کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا جائز کیوں نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بے شک مذکورہ بالا ہستیاں سلامتی والی ہیں اور ان پر اللہ کریم کی سلامتی ہے  اور "علیہ السلام" کابھی یہی مطلب ہے کہ ان پر سلامتی ہو لہذا معنی کے اعتبار سے بات تو درست ہی ہے مگر یہاں  ممانعت معنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس اعتبار سے  ہے کہ یہ صیغے انبیا ء اور فرشتوں کے ساتھ خاص ہو چکے ہیں ، مستقلاً صرف انہیں کے اسمائے گرامی کے ساتھ ہی علیہ السلام لگایا جائے گا ، سلف صالحین و آئمہ دین سے یہی معمول، اور غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام لگانے کی ممانعت منقول ہے ، مزید اسے اس مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک عزت وبزرگی والی بلند و بالا ہستی ہیں اور "عز و جل " کا یہی معنی ہے مگر معنی کا اعتبار کر کے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم کے نام  گرامی کے ساتھ "عز وجل" نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ  صیغہ صرف اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ ہی خاص ہے یونہی  مستقلا  دود  و سلام بھی انبیا و فرشتوں کے ساتھ خاص ہے   ۔

   دوسری بات یہ ہے کہ غیر نبی کے نام کے  ساتھ "علیہ السلام" لگانا اہلِ بدعت کا شعار ہے اور بدعتیوں کے شعار سے بچنا لازم ہے ۔

     البتہ! اگر صلاۃ و سلام مستقل طور پر نہ ہو  بلکہ کسی نبی کی اتباع میں ہو توجائز ہے۔

   رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :"اما السلام فنقل اللقانی فی شرح جوھرة التوحید عن الامام الجوینی انه فی معنی الصلوٰة فلا یستعمل فی الغائب ولا یفرد به غیر الانبیاء فلا یقال علی علیه السلام-اھ….. والظاهر أن العلة في منع السلام ما قاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع، ولأن ذلك مخصوص في لسان السلف بالأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - كما أن قولنا عز وجل مخصوص بالله تعالى، فلا يقال محمد عز وجل وإن كان عزيزا جليلا ثم قال اللقاني: وقال القاضي عياض الذي ذهب إليه المحققون، وأميل إليه ما قاله مالك وسفيان، واختاره غير واحد من الفقهاء والمتكلمين أنه يجب تخصيص النبي - صلى الله عليه وسلم - وسائر الأنبياء بالصلاة والتسليم كما يختص الله سبحانه عند ذكره بالتقديس والتنزيه، ويذكر من سواهم بالغفران والرضا "ترجمہ: بہرحال سلام تو اس بارے میں امام لقانی نے جوہرۃ التوحید کی شرح میں امام جوینی سے نقل کیا کہ یہ درود کے معنی میں ہے،لہذا نہ اسے غائب کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی پر انفرادی طور پر بولا جاسکتا ہے پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے۔ ظاہر یہی ہے کہ سلام کی ممانعت کی علت وہی ہے جو درود کی ممانعت کی علت امام نووی علیہ الرحمہ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ اہلِ بدعت کا شعار ہے اور اس لئے کہ سلف کی زبانوں پر یہ انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام  کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ہمارا "عزوجل "کہنا اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے ،پس محمد عزوجل نہیں کہا جائے گا اگرچہ وہ عزت والے جلیل القدر ہیں ۔پھر لقانی نے فرمایاکہ امام قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جو محققین کا مذہب ہے اور میں جس کی طرف مائل ہوں وہ ،وہی ہے جو امام مالک و سفیان علیھما الرحمۃ نے فرمایا،اور فقہاء و متکلمین میں سے متعدد نے اسے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کرام  علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ  درود و سلام کی تخصیص واجب ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ کے ذکرکے وقت اس کے ساتھ تقدیس و تنزیہ  کی تخصیص واجب ہے اور انبیاء کرام علیھم السلام کے علاوہ کا ذکر مغفرت و رضا کے ساتھ کیا جائے گا۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج6،ص573،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم