مجیب: عبدالرب شاکرعطاری قادری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8947
تاریخ اجراء: 25صفرالمظفر1444 ھ/22ستمبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ کیا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم زندہ ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام اورخصوصاحبیبِ کِردگار احمد مختار محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی وفات کے بعد حیات پرامت مُسْلِمَہ کااِجماع رہاہے اور علمائے امت نے اس موضوع پرمستقل رسائل تحریرفرمائے ہیں،البتہ ماضی قریب کے کچھ اَفرادنے اس مسئلے کوبھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی طرف منسوب کرکے یہاں تک کہہ دیاکہ”میں بھی ایک دن مرکرمٹی میں ملنے والاہوں“حالانکہ یہ کسی بھی حدیث میں نہیں آیا،بلکہ بذات ِخودنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے وفات کے بعدحیات کا اورمٹی کااجسادِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام کونہ کھانے کاذکرفرمایا۔وفات کے بعدحیاتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام پربکثرت آیات،احادیث اور اقوالِ علماء موجودہیں ،جن میں سے فقط چندایک درج ذیل ہیں۔
حیات النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے ثبوت پر آیات وتفاسیر:
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕبَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں۔ ہاں تمہیں خبر نہیں۔‘‘(پارہ 2 ،سورۃ البقرہ ،آیت 154 )
مشہورمفسرقرآن علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ان الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ،و يدل على ذلك:أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء عند ربهم يرزقون، فرحين مستبشـريـن، وهـذه صفة الأحياء في الدنيا وإذا كان هذا الشهداء ، كان الأنبيـاء بـذلك أحـق وأولى مع أنه قد صح عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أن الأرض لاتـأكـل أجساد الأنبيـاء وأن الـنبـي صلى اللہ عليه وسلم قد اجـتـمـع بـالأنبيـاء ليلة الإسراء في بيت المقدس، وفي السماء وخصوصاً بموسى‘‘ ترجمہ:موت محض نابُود ہونے کا نام نہیں، بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ شہداء اپنے قتل اور موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں ، اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں، شاد ومسرور ہوتے ہیں اور یہی دنیا میں زندوں کی صفت ہے اور جب شہداء کا یہ حال ہے ،تو انبیاء علیہم السلام زندہ ہونے میں ان سے بڑھ کر ہیں ،اور اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےصحیح حدیث میں مروی ہے: ’’بے شک زمین انبیاء علیہم السلام کے اَجسام کو نہیں کھاتی اور بے شک نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم بیت المقدس اور آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع ہوئے،بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ۔
(التذکرۃ باحوال الموتی وامور الآخرۃ ،ج 1 ،ص 459 ،460 ،مطبوعہ ریاض )
مفسر ِقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’بل حیوۃ الانبیاءاقوی منھم واشد ظھورا اثارھا فی الخارج حتی لا یجوز النکاح بازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاتہ بخلاف الشھید “ ترجمہ : بلکہ انبیاء علیہم السلام کی حیات شہداء کی حیات سے زیادہ قوی ہے اور اس کے آثار خارج میں زیادہ ظاہر ہیں ،یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدبھی ان کی ازواج سے نکاح کرنا ،جائز نہیں، بر خلاف شہید کے( کیونکہ شہید کی وفات کے بعداس کی بیوہ سے نکاح جائز ہے) ۔(تفسیر مظھری ،سورۃ البقرۃ ،ج 1، ص 152 ،مطبوعہ کوئٹہ )
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’حیات نبینا صلی اللہ علیہ وسلم اکمل واتم من حیات سائرھم علیھم السلام “ ترجمہ : ہمارےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دیگر(سارے) انبیائے کرام علیھم السلام کی حیات سے زیادہ اکمل واتم ہے۔(تفسیر روح المعانی ،سور ۃ الاحزاب ،ج 11 ،ص 216 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت )
تفسیر روح البیان میں ہے :’’ان حياة الأنبياء حياة دائمة فى الحقيقة ولا يقطعها الموت الصوری فانه انما يطرأ على الأجساد بمفارقة الأرواح مع ان أجسادهم لا تأكلها الأرض فهم بمنزلة الاحياء من حيث الأجساد ایضا “ ترجمہ : انبیاء علیھم السلام کی زندگی حقیقت میں ہمیشگی والی زندگی ہوتی ہے(اور) موتِ صوری ان کی زندگی کو ختم نہیں کرتی، کیونکہ موتِ صوری روحوں کے جسموں سےجدا ہونے کی وجہ سے جسموں پر طاری ہوتی ہے، جبکہ انبیاء علیھم السلام کے اجسام کو زمین نہیں کھاتی،تو انبیائے کرام علیھم السلاماجسام کے لحاظ سے زندہ لوگوں کے درجہ میں ہوئے ۔(تفسیر روح البیان ،ج 8 ،ص 418 ،مطبوعہ دار الفکر، بیروت )
اللہ تعا لیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :﴿وَ لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ﴾ترجمہ: کنز العرفان:’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مُردہ نہ خیال کرنا ،بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، روزی پاتے ہیں۔‘‘(پارہ 4 ،سورہ آل عمران ،آیت 169 )
اس آیت کے تحت علامہ ابن رجب دمشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’فإن حياة الأنبياء أكمل من حياة الشهداء بلا ريب فيشملهم حكم الأحياء أيضا“ ترجمہ : بلا شبہ انبیاء علیھم السلامکی زندگی شہداء کی زندگی سے زیادہ کامل ہے ،لہذا (انبیاءعلیھم السلام کی ظاہری وفات کے بعد ) انبیاءعلیھم السلام کو زندہ لوگوں والا حکم ہی شامل ہوگا ۔ (تفسیر ابن رجب، ج 1 ،ص 269 ،مطبوعہ دار العاصمة المملكة العربیۃ)
حیات النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے ثبوت پر احادیث:
سنن ابوداؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،سنن دارمی،سنن کبرٰی للبیہقی،سنن کبرٰی للنسائی،مسنداحمدبن حنبل،مصنف ابن ابی شیبہ، اور صحیح ابن حبان میں ہے،واللفظ للاول:”قال رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثرواعلی من الصلوة فیہ فان صلاتکم معروضة علی:قالوا:وکیف تعرض صلاتناعلیک وقدارمت،فقال ان اللہ عزوجل حرم علی الارض اجسادالانبیاء“ترجمہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم مجھ پرکثرت کے ساتھ جمعہ کے دن درودپڑھو،کیونکہ تمہارا دُرود مجھ پرپیش کیاجاتاہے،صحابہ نے عرض کیاکہ ہمارا دُرودکیسے آپ پرپیش ہوگا،حالانکہ آپ تو ظاہری وصال فرما چکے ہوں گے؟توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بیشک اللہ تعالی نے زمین پرانبیاء( علیھم السلام) کے اَجسام کھاناحرام کردیاہے۔(سنن ابوداؤد، کتاب الصلوة ج 1،ص158،مطبوعہ لاھور)
سنن ابن ماجہ،مشکوة المصابیح اورجامع الاحادیث میں ہے،واللفظ لسنن ابن ماجہ:”عن ابی درداء رضی اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم: اکثرو االصلوة علی یوم الجمعة فانہ مشھود تشھد ہ الملٰئکة وان احدا لن یصلی علی الا عرضت علی صلوة حتی یفرغ منھا قال قلت وبعد الموت ؟قال وبعد الموت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللہ حی یرزق“ ترجمہ:حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جمعہ کے دن دُرودِپاک کی کثرت کرو کہ یہ یومِ مشہود ہے ،اس روز فرشتے آتے ہیں اور جو کوئی بھی مجھ پر دُرود پڑھتا ہے، تو اس کے فارغ ہونے سے پہلے مجھ پر پیش کردیا جاتا ہے،(راوی نے )عرض کی اور (آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی )وفات کے بعد(بھی ایسا ہوگا؟) فرمایا : اور وفات کے بعد (بھی ایسا ہوگا)کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیھم السلام کے جسموں کو کھانا حرام کردیا،پس اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہے،رزق دیا جاتاہے ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز،باب ذکر وفاتہ ودفنہ،ص118،مطبوعہ کراچی)
جامع الصغیر،جامع الاحادیث،جمع الجوامع،فیض القدیر،مجمع الزوائد،مسندبزار اورمسندابی یعلی میں ہے،واللفظ لمسندابی یعلی:” عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون“حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انبیاء علیھم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اورنمازپڑھتے ہیں۔(مسندابی یعلی الموصلی ،ج03، ص379،مطبوعہ علوم القرآن،بیروت)
صحیح مسلم،سنن نسائی،مسنداحمد،مسندابی یعلی،مصنف عبدالرزاق،صحیح ابن حبان اورالمعجم الکبیرمیں ہے،واللفظ للمسلم:”عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:مررت علی موسی وھوقائم یصلی فی قبرہ“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میں موسی علیہ السلام کی قبرسے گزرا،تووہ اپنی قبرمیں کھڑے نمازپڑھ رہے تھے۔(الصحیح لمسلم،باب من فضائل موسی،ج02،ص268،مطبوعہ کراچی)
حیات النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے ثبوت پر اَقوالِ علماء:
مذکورہ بالاحدیث کے تحت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ رحمۃاللہ القوی لکھتے ہیں:”قال الشیخ بدرالدین بن الصاحب فی مؤلف لہ فی حیاة الانبیاء:ھذاصریح فی اثبات الحیاة لموسی فی قبرہ فانہ وصفہ بالصلوة وانہ قائم ومثل ذلک لایوصف بہ الروح وانمایوصف بہ الجسدوفی تخصیصہ بالقبردلیل علی ھذافانہ لوکان من اوصاف الروح لم یحتج.....لتخصیصہ بالقبر“ ترجمہ:شیخ بدرالدین بن صاحب نے اپنی تالیف ”حیاة الانبیاء“ میں فرمایا: یہ حدیث حضرت موسی علیہ السلام کی قبرمیں حیات (کو ثابت کرنے) کے بارے میں صریح ہے، کیونکہ اس میں نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے موسی علیہ السلام کو نمازپڑھنے کے ساتھ موصوف کیا ہے کہ وہ کھڑے ہوکرنمازپڑھ رہے تھےاوراس (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے)کے ساتھ صرف روح کو موصوف نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس (وصف)کے ساتھ تو جسم کو موصوف کیا جاتا ہےاورقبرکی تخصیص بھی اس پردلیل ہے کہ اگریہ صرف روح کے اوصاف میں سے ہوتا،توقبرکی تخصیص کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاتی ۔(زھرالربی شرح سنن النسائی المجتبی،ج01،ص243،مطبوعہ کراچی)
علامہ ابوداؤدبن سلیمان بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی لکھتے ہیں:”والحاصل ان حیاۃ الانبیاء ثابتۃ بالاجماع“ترجمہ:اور حاصل ِکلام یہ ہے کہ انبیاء کی حیات اجماع ِ امت سے ثابت ہے۔ (المنحۃ الوھبیۃ،ص06 ، مطبوعہ استنبول)
شیخ الاسلام امام احمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں:”فانھم صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیھم طیبون طاھرون احیاء وامواتابل لاموت لھم الاآنیاتصدیقاللوعدثم ھم احیاء ابدابحیاة حقیقة دنیاویة روحانیة جسمانیة کما ھومعتقداھل السنة والجماعة ولذالایورثون ویمتنع تزوج نسائھم صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیھم“ترجمہ:حضرات ابنیاء صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہم حیات وممات ہرحالت میں طیب وطاہرہیں، بلکہ ان کے لیے موت اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تصدیق کے لیے ایک لمحہ کوآتی ہے، پھروہ ہمیشہ کے لیے حیاتِ حقیقی دنیاوی ، روحانی وجسمانی کے ساتھ زندہ ہیں،جیساکہ اہل سنت وجماعت کاعقیدہ ہے ۔ اسی لیے کوئی ان کاوارث نہیں ہوتااور ان کی عورتوں سے کسی کا نکاح کرنا بھی منع ہے صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہم۔“(فتاوی رضویہ، ج03، ص404،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)
شیخ الاسلام امام احمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اس خوب صورت دلیل کوعمدہ پیرائے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس کی ازواج کوجائزہے نکاح اس کاترکہ بٹے جوفانی ہے
یہ ہیں حَیّ(زندہ) ابدی ان کورضا صدق ِوعدہ کی قضاآنی ہے
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟