Har Sahabi e Nabi Jannati Jannati Ka Nara Lagana Kaisa?

’’ہر صحابی نبی ، جنتی جنتی ‘‘کا نعرہ لگانا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2088

تاریخ اجراء: 01 جمادی الاولی   1442ھ/17دسمبر 2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارےمیں کہ آج کل ایک نعرہ لگایا جاتا ہے: ”ہر صحابی نبی جنتی جنتی“حالانکہ ایک جنگ  کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایک شخص کی شہادت کی خبر دی گئی، تو آپ نے فرمایا : ”الی النار“یعنی وہ تو دوزخی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب اس طر ح کی حدیث پاک موجود ہے، تو پھر  یہ نعرہ : ”ہر صحابی نبی جنتی جنتی“ لگانا کیسے درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی شان و عظمت بہت زیادہ ہے اور ان کے فضائل سے قرآن و حدیث مالامال ہیں۔ کئی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہے ، لہٰذا یہ نعرہ لگانا”ہر صحابی نبی جنتی جنتی“ بالکل درست اورقرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔سوال میں جس شخص کا تذکرہ کیاگیا ہے،یہ ایک منافق اعتقادی  تھا، جو مسلمان بن کر چھپا ہوا تھا  ،جس کے نفاق کو ظاہر کرتے ہوئے اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے وعید بیان کرتے ہوئے اس کے  انجام کو بیان فرمایا ۔

   اللہ عزوجل صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے:﴿ لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’ تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا۔ وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے  اللہ جنت کا وعدہ فرماچکااوراللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘ (پارہ27، سورہ حدید، آیت10)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت امام اہلسنت امام الہدی امام ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”ای وعد اللہ لکلا الفریقین من انفق قبل الفتح وبعدہ الجنۃ والثواب الحسن“ یعنی اللہ تعالیٰ  نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دونوں گروہوں یعنی جنہوں نے فتح مکہ سے قبل اور بعد خرچ کیا، ان سے جنت اور اچھے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ (تفسیر ماتریدی، جلد9، صفحہ519، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   اس آیتِ کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تفسیر سمرقندی میں ہے: ”معناہ وعد اللہ کلا الحسنی یعنی الجنۃ“ یعنی آیت کریمہ کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔(تفسیر سمرقندی، جلد3، صفحہ382،دار الفکر،  بیروت)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے: ”ای المثوبۃ الحسنی وھی الجنۃ“ یعنی (اللہ عزوجل نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ )اچھے ثواب یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔(ارشاد العقل السلیم، جلد5، صفحہ274، ریاض)

   اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر کبیر میں ہے: ”وفیہ مسائل: المسئلہ الاولیٰ: ای وکل واحد من الفریقین وعداللہ الحسنی ای المثوبۃ الحسنی وھی الجنۃ مع تفاوت الدرجات“ یعنی اس آیت کریمہ میں کئی مسائل بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ  صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دونوں گروہوں کے ساتھ اللہ عزوجل نے عمدہ اجر یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے ہاں درجات ضرور مختلف ہوں گے۔(تفسیر کبیر، جلد29، صفحہ220، بیروت)

   یہی آیت کریمہ لکھنے کے بعد صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”تو جب اس نے ان کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنت بے عذاب وکرامت و ثواب کا وعدہ فرما چکے، تو دوسرے  کو کیا حق رہا کہ ان کی کسی بات پر طعن کرے۔“(بھار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ 255، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہے: ”تمام صحابہ کر ام اعلیٰ و ادنی (اور ان میں ادنی کوئی نہیں) سب جنتی ہیں۔ وہ جہنم کی بھنک  نہ سنیں گےاور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔یہ سب مضمون قرآن عظیم کا ارشاد ہے۔“(بھار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ254، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صحابہ کرام علیہم الرضوان کے فضائل میں بے شمار احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں۔

    چنانچہ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول لا تمس النار  مسلما رانی“ یعنی جس مسلمان نے مجھے دیکھا، اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔(سنن الترمذی،جلد2، صفحہ705، حدیث3826، لاھور)

   اس حدیث پاک کے تحت فیض القدیر میں ہے: ”(لا تمس النار) ای نار جھنم“ یعنی آگ کے نہ چھونے سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔(فیض القدیر، جلد6، صفحہ547، تحت الحدیث9867، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے: ”یعنی جس نے بحالت ایمان مجھے دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ،وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔۔ خیال رہے کہ سارے صحابہ جنتی ہیں ،مگر عشرہ مبشرہ وہی ہیں، جنہیں ایک حدیث نے جمع فرمایا، ورنہ سارے صحابہ جنتی ہیں۔“(مراۃ المناجیح، جلد8، صفحہ287، مطبوعہ لاھور)

   رہی بات اس حدیث پاک کی جس کے متعلق سوال کیا گیاہے، تو بلاشبہ اس طرح کی حدیث پاک موجود ہے،جس میں ایک شخص کے انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الی النار“ یعنی وہ تو دوزخی ہے۔ اس حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے محدثین کرام نے بیان فرمایا کہ جس شخص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دوزخی ہونے کا فرمایا، وہ صحابی نہیں، بلکہ منافق تھا۔

   بخاری شریف میں ہے: ”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال شھدنا مع رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خیبر فقال لرجل ممن یدعی الاسلام ”ھذا من اھل النار“ فلما حضر القتال قاتل الرجل قتالا شدیدا فاصابتہ جراحۃ فقیل یا رسول اللہ ! الذی قلت انہ من اھل النار فانہ قد قاتل الیوم قتالا شدیدا وقد مات  فقال النبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الی النار قال فکاد بعض الناس ان یرتاب فبینما ھم علی ذلک اذ قیل لم یمت ولکن بہ جراحا شدیدا فلما کان من اللیل لم یصبر علی الجرح فقتل نفسہ فاخبر النبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بذلک فقال : اللہ اکبر اشھد انی عبد اللہ ورسولہ ثم امر بلالا فنادی بالناس  انہ لا یدخل الجنۃ الا نفس مسلمۃوان اللہ لیوید ھذا الدین بالرجل الفاجر“ یعنی :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں : ہم غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر تھے،تو آپ نے ایک شخص کے متعلق جو اسلام کا دعوی کرتا تھا، فرمایا کہ یہ دوزخی ہے۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی، تو اس شخص نے بہت زور و شور سے جنگ کی۔ اس  دوران اسے زخم پہنچا، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا گیا کہ جس شخص کے دوزخی ہونے  کا فرمایا تھا ، اس نے تو آج بہت شدید قسم کی لڑائی کی یہاں تک کہ وہ مر گیا۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دوزخی ہے۔قریب تھا کہ بعض لوگ یہ سن کر شک میں پڑ جاتے کہ بتایا گیا  وہ  نہیں مرا، بلکہ اسے سخت زخم پہنچے تھے، جب رات ہوئی، تو وہ صبر نہ کر سکا اور اپنے آپ کو قتل کر دیا۔ اس کی خبر نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی، تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور اللہ عزوجل اپنے اس دین کی مدد کسی فاجر شخص سے بھی کروا لیتا ہے۔(الصحیح للبخاری، صفحہ413، حدیث3062،  مطبوعہ ریاض)

   اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے: ”اسمہ قزمان وھو معدود فی المنافقین“ یعنی اس شخص کا نام قزمان تھا اور اس کا شمار منافقین میں ہوتا تھا۔(عمدۃ القاری، جلد14، تحت الحدیث2898، صفحہ253، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے: ” قولہ الا نفس مسلمۃ یدل علی ان الرجل قد ارتاب وشک حین اصابتہ الجراحۃ“ یعنی حدیث پاک کے یہ الفاظ ”جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوگا“اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جب اس شخص کو زخم پہنچا تھا ، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا تھا۔(عمدۃ القاری، جلد14، صفحہ426، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت ارشاد الساری میں ہے: ”اسمہ قزمان الظفری وھو معدود فی جملۃ المنافقین“ یعنی اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا اور وہ منافقین کے گروہ میں شامل تھا۔(ارشاد الساری، جلد5، صفحہ176، مصر)

   اسی طرح کی حدیث پاک کے تحت ارشاد الساری میں مزید ایک مقام پر ہے: ”لنفاقہ باطنا“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے باطنی طور پر منافق ہونے کی وجہ سے دوزخی فرمایا تھا۔         (ارشاد الساری، جلد6، صفحہ362، مصر)

   اس حدیث پاک کے تحت شرح الزرقانی میں ہے: ”قال المھلب ھذا الرجل ممن اعلمنا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم انہ نفذ علیہ الوعید من النفاق “ یعنی مہلب کہتے ہیں: یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جن کے متعلق رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتا دیا کہ ان کے نفاق کی وجہ سے ان پر یہ وعید نافذ ہوگئی۔(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ، جلد3، صفحہ262، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت نزہۃ القاری میں ہے: ”ابتدا میں جو فرمایا: ”لرجل یدعی الاسلام“اور اخیر میں جو منادی کرائی گئی، اس سے بظاہر یہ متبادر  ہوتا ہے کہ یہ حقیقت میں مسلمان نہ تھا۔(اس کے بعد مفتی صاحب علیہ الرحمۃ نے  ثابت  کیا کہ لفظ فاجر، کافر کےلیے بھی بولا جاتا ہے، لہذا)اس حدیث میں بھی فاجر سے اگر کافر مراد لیاجائے، تو کوئی استبعاد نہیں۔“(ملتقط از نزھۃ القاری، جلد4، صفحہ173، فرید بک سٹال، لاھور)

   اس حدیث پاک کے تحت تفہیم البخاری میں ہے: ”سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد کہ:”جنت میں مسلمان ہی داخل ہوں گے“سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوان مرد جب شدید زخمی ہوگیا تھا، تو اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدق میں شک کرلیا تھا اور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے باطنی کفر کو جانتےتھے۔‘‘(تفھیم البخاری، جلد4، صفحہ442، مطبوعہ فیصل آباد)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم