Ghous Pak Ke Name Ka Bakra Zibah Karna Kaisa?

غوث پاک کے نام کا بکرا ذبح کرنا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar-7405-1

تاریخ اجراء: 17رجب المرجب1439ھ/04اپریل2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ کسی جانور کو اس لیے رکھا جائے کہ اس کو داتا صاحب یا غوث اعظم رحمہما اللہ تعالی کے لیے ایصال ثواب  کی نیت سے ذبح کرنا ہے ، تو جائز ہے ، مگر بکر کہتا ہے : یوں کسی بزرگ کے نام سے جانور رکھنا جائز نہیں ،یہ ناجائز و حرام بلکہ شرک ہے اگرچہ وقت ذبح اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے،ان دونوں میں سے کون صحیح ہے ؟قرآن وحدیث کی روشنی مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زید کی بات درست ہے ، جبکہ بکر کی بات سراسر جہالت اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، کیونکہ کسی بزرگ کے نام پر جانور رکھنا،ان کی طرف منسوب کرکے پکارنا اور ان کے ایصال ثواب کے لیے ذبح کرنا شرعابھی جائز ہے اور عقلا بھی درست ہے۔

   اس کو سمجھنے کے لیے چند باتیں پیش نظر رہیں :

   (1)مسلمان اللہ تعالیٰ کے نام پر جس جانور کو ذبح کرے وہ حلال ہے ۔البتہ اگر ذبح کرنے والا جانور کو ذبح کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ کے نام کی بجائے کسی اور کا نام لے ، تو وہ جانور حرام ہوجائے گا،اور عام طور پر کسی مسلمان سے ایسا ہونا بہت بعید ہے ۔

   (2)اگر بوقت ذبح جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے ، لیکن اس کو ذبح کرنے سے مقصود کچھ اور ہو ، تو اس سے جانور حرام نہیں ہوجاتا ۔ جیسے قصاب کاجانورذبح کرنے سے مقصود مال کمانا ہوتا ہے اور شادی بیاہ کرنے والے کا مقصود لوگوں کو کھانا کھلانا ہوتا ہے۔بلکہ یہ تو بعض صورتوں میں باعث ثواب ہوتا ہے ۔ جیسے حدیث پاک میں ارشاد ہوا  کہ جس نے مہمان کے لیے جانور ذبح کیا ، تویہ جانور اس کی طرف سے  جہنم کا فدیہ ہوجائے گا۔ اسی طرح  کسی بزرگ کو ایصال ثواب کے لیے جانور ذبح کرنا بھی مستحب ومستحسن عمل ہے ۔

   (3)رہی یہ بات کہ اس جانور کو بزرگوں کی طرف نسبت کرکے اس طرح پکارنا کہ غوث پا ک کا بکرا ، داتا صاحب کی گائےوغیرہ ۔تو یہ بھی درست ہے اور اس سے مراد ہوتا ہے وہ جانور جو فلاں بزرگ کے ایصال ثواب کے لیے ہے ، کیونکہ ایک چیز کو دوسری کی طرف منسوب کرنے کے لیے ان کے درمیان ادنی سا تعلق بھی کافی ہوتا ہے اوراضافت سے ہر جگہ عبادت مراد نہیں ہوتی ۔ جیسے احادیث میں  صوم داؤد (حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے )اور صلوۃ داؤد (حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز)کا تذکرہ ہے اورجیسے کہتے ہیں مسافر کی نماز،اونٹوں کی زکوۃ وغیرہ  ۔اس سے کوئی بھی یہ مراد نہیں لیتا کہ معاذ اللہ ! یہ روزے حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت کے لیے ہیں یا یہ نماز مسافر کی عبادت کے لیے ہے بلکہ ایک تعلق کی بنا پر اضافت کی گئی ہے اسی طرح یہاں بھی  ایک تعلق (یعنی ان بزرگوں کے ایصال ثواب کے لیے ہونے )کی وجہ سے نسبت کی جاتی ہے ، لہٰذا اوپر مذکور حکم بالکل واضح ہوگیا ۔ اس کے جزئیات درج ذیل ہیں :

   قرآن ِ مجید میں اللہ جل مجدہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ بِہٖ﴾ترجمۂ کنزالایمان:’’تم پر حرام ہے مردار اورخون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیرِ خدا کانام پکارا جائے۔‘‘(پارہ 6،سورۃ المائدۃ ،آیت3)

   اس آیت میں ﴿ما أ ھل بہ لغیر اللہ﴾(یعنی  وہ جانورجس کے ذبح میں غیرِ خدا کانام پکارا جائے )سے مراد وہ جانور ہے جس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لیا گیا ہو ۔ بزرگو ں کے نام پر رکھے ہوئے یا ان کے ایصال ثواب کے لیے ذبح کیے جانے والے جانور اس سے مراد نہیں ہیں ۔ چنانچہ متعدد تفاسیر قرآن مثلا ً تفسیر کبیر ، احکام القرآن للجصاص ،حاشیہ صاوی علی جلالین ،حاشیہ جمل علی جلالین ،تفسیر مدارک،تفسیر خازن اورتفسیر روح المعانی وغیرہ میں اس آیت کریمہ کے تحت مذکور ہے : (والنظم ھذا للرازی )’’ والاھلال رفع الصوت ۔۔۔وکانوا یقولون عند الذبح باسم اللات والعزی فحرم اللہ تعالیٰ ذلک‘‘ترجمہ: اہلال سے مراد آواز کو بلندکرنا اور کفارِ عرب ذبح کے وقت لات عُزی کا نام لیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام فرما دیا۔‘‘ (تفسیرِ کبیر ، جلد4،صفحہ283، لاھور)

   اور احکام القرآن کے الفاظ یہ ہیں : ’’ ولا خلاف بین المسلمین أن المراد بہ الذبیحۃ اذا أھل بھا لغیر اللہ عند الذبح ‘‘ ترجمہ: مسلمانوں میں اس بات پرکوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں مراد وہ جانور ہے جس کے ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لیا گیا ہو۔‘‘(احکام القرآن للجصاص ، جلد1 ، صفحہ176 ، مطبوعہ کراچی)

   حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ من ذبح لضیف، ذبیحۃ کانت فداء ہ من النار‘‘ترجمہ:جو اپنے مہمان کے لئے جانور ذبح کرے وہ ذبیحہ دوزخ کی آگ سے  اس کا فدیہ ہوگا ۔(کنز العمال ،کتاب الضیافۃ ،الفصل الاول ،جلد9،صفحہ245،حدیث 25852،مؤسسۃ الرسالہ )

   درمختارمیں ہے:’’ لو ذبح للضیف لایحرم لانہ سنۃ الخلیل و اکرام الضیف اکرام ﷲ تعالی‘‘ ترجمہ : جس نے مہمان کے لیے ذبح کیا تووہ حرام نہیں  ہوگا کیونکہ یہ خلیل علیہ السلام کی سنت اور مہمان کا اکرام ہے اور مہمان کا اکرام اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔

   ردالمحتارمیں ہے: ’’قال البزازی ومن ظن انہ لایحل لانہ ذبح لاکرام ابن اٰدم فیکون اھل بہ لغیر ﷲ تعالی فقد خالف القراٰن والحدیث و العقل فانہ لاریب ان القصاب یذبح للربح ولو علم انہ نجس لایذبح فیلزم ھذا الجاھل ان لایاکل ماذبح القصاب وما ذبح للولائم والاعراس والعقیقۃ‘‘ترجمہ: بزازی نے کہا : اور جس نے گمان کیا کہ وہ اس لئے حلا ل نہیں کہ اس کو  بنی آدم کے اکرام کے لیے ذبح کیا گیا ہے تو یہ غیر اللہ کے نام سے ذبح ہوا ، تو اس نے قرآن وحدیث اور عقل کے خلاف بات کی ، کیونکہ بلا شبہہ قصاب نفع کے لئے ذبح کرتاہے اوراگر اسے معلوم ہو کہ یہ نجس ہے تو وہ ذبح نہ کرے، تو ایسے جاہل کو چاہیے کہ وہ قصاب کے ذبح کردہ کونہ کھائے اور ولیمہ اور شادی اور عقیقہ کے لئے ذبح کردہ بھی نہ کھائے۔         (رد المحتار علی درمختار،جلد9، صفحہ515، مطبوعہ کوئٹہ )

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’حق اس مسئلہ میں ہے کہ حلت وحرمت ذبیحہ میں حال وقول ونیت ذابح کا اعتبار نہ کہ مالک کا۔۔ پھر مسلمان ذابح کی نیت بھی وقت ذبح کی معتبر ہے اس سے قبل وبعد کا اعتبار نہیں ۔۔ پھر اضافت معنی عبادت میں منحصر نہیں کہ خواہی نخواہی مدار کے مرغ یا چہل تن کی گائے کے معنی ٹھہرالیے جائیں کہ وہ مرغ وگاؤ جس سے ان حضرات کی عبادت کی جائے گی، جس کی جان ان کے لئے دی جائے گی، اضافت کو ادنی علاقہ کافی ہوتاہے، ظہر کی نماز، جنازہ کی نماز، مسافر کی نماز، امام کی نماز، مقتدی کی نماز، بیمار کی نماز، پیرکار وزہ۔ اونٹوں کی زکوٰۃ، کعبہ کا حج، جب ان اضافتوں سے نما زوغیرہ میں کفر وحرمت درکنار نام کو بھی کراہت نہیں آتی، تو حضرت مدار کے مرغ، حضرت احمد کبیر کی گائے، فلاں کی بکری کہنے سے یہ خدا کے حلال کیے ہوئے جانور کیوں جیتے جی مرداراور سور ہوگئے کہ اب کسی صورت حلال نہیں ہوسکتے؟ یہ شرع مطہر پر سخت جرأت ہے۔۔۔ کیا ذبح نماز روزے سے بڑھ کر عبادت خدا ہے یا اس میں شرکت حرام ، ان میں روا ہے۔۔۔ مطلقا نیت غیر کو موجب حرمت جاننے والا سخت جاہل اور قرآن و حدیث وعقل کا مخالف ہے ۔۔۔ دیکھو علمائے کرام صراحۃً ارشاد فرماتے ہیں کہ مطلقا نیت ونسبت غیر کو موجب حرمت جاننا اور مااُہل بہ لغیر اﷲ میں داخل ماننا نہ صرف جہالت بلکہ جنون و دیوانگی اور شرع وعقل دونوں سے بیگانگی ہے، جب نفع دنیا کی نیت مخل نہ ہوئی تو فاتحہ اور ایصال ثواب میں کیا زہر مل گیا اور اکرام مہمان عین اکرام خدا ٹھہرا تو اکرام اولیاء بدرجہ اولیٰ ، ہاں اگر کوئی جاہل اجہل یہ نسبت واضافت بقصد عبادت غیر ہی کرتاہے تو اس کے کفر میں شک نہیں ۔ پھر اگر ذابح اس نیت سے بَری ہے تو جانور حلال ہوجائے گا کہ نیت غیر اس پر اثر نہیں ڈالتی کما حققناہ اٰنفا مگر جب کہ حدیثا وفقہاً دلائل قاہرہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ اضافت معنی عبادت ہی میں منحصر نہیں ، تو صرف اس بناء پرحکم کفر محض جہالت وجرأت وحرام قطعی اور مسلمانوں پر ناحق بدگمانی ہے، تم سے کس نے کہہ دیا کہ وہ آدمیوں کا جانور کہنے سے عبادت آدمیان کا ارادہ کرتے ہیں  اور انھیں اپنا معبودوخدا بنانا چاہتے ہیں؟‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ269،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم