Ghaus Pak Raful Yadain Karte The Tu Hanafi Kyun Nahi Karte ?

غوث پاک  رحمۃ اللہ علیہ رفع  یدین کرتے تھے، تو حنفی کیوں نہیں کرتے ؟

مجیب: مفتی   ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Grw-0174

تاریخ اجراء: 27محرم الحرام  1443ھ/08ستمبر  2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضور غوث پاک  شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ  نماز میں تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین کرتے تھے،مگر حنفی حضرات رفع یدین نہیں کرتے، حالانکہ غوث پاک کو مانتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فقہی و فروعی مسائل میں امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کے مقلِّد تھے اور فقہِ  حنبلی   کے مطابق نماز میں تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین کرنا سنت ہے ۔ اسی وجہ سے غوثِ پاک بھی رفع یدین کیا کرتے تھے ۔ رہی بات انہیں ماننے اور ان کے سلسلے میں بیعت ہونے کی،تو یاد رہے کہ چاروں ائمہ(امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ، امام مالک بن انس  ، امام محمد بن ادریس شافعی ، امام احمدبن حنبل علیہم الرحمۃ) اور ان کے متبعین سب  اہلسنت ہیں، ان میں عقیدے کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا  ایک دوسرے سے بیعت و ارادت  کا سلسلہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کا تعلق فقہی مسائل کے ساتھ نہیں، سلسلہ عالیہ قادریہ کے شجرۂ طریقت میں حنفی بزرگ بھی موجود ہیں، جیسا کہ حضرت سیدنا شیخ عبد الواحد تمیمی (المتوفی : 410ھ )  حضور غوث پاک سے پہلے کے بزرگ ہیں ،سلسلہ قادریہ کے پیشوا ہیں اور امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مقلِّد یعنی حنفی ہیں ۔ ایسی اور بھی بہت سی  مثالیں موجود ہیں ۔

   رہی بات فقہی مسائل کی ، تو ان  میں ہر شخص اپنے امام  کی پیروی کرے گا  ،لہذا حنفی اگرچہ قادری ہو نماز میں رفع یدین نہیں کرے گا کہ عند الاَحناف نماز میں تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین سنت نہیں  ۔

   امام شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد الذهبي (المتوفى : 748ھ)  اپنی کتاب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ کے  تعارف میں لکھتے ہیں :’’الشيخ عبد القادر أبومحمد بن عبد اللہ الجيلي :الشيخ، الإمام، العالم، الزاهد، العارف، القدوة، شيخ الإسلام، علم الأولياء، محيي الدين، أبو محمد عبد القادر ابن أبي صالح عبد اللہ بن جنكي دوست الجيلي ، الحنبلي، شيخ بغداد"ترجمہ :شیخ عبد القادر ابو محمد بن عبد اللہ الجیلانی :شیخ ، امام ، عالم ، زاہد، عارف، پیشوا، شیخ الاسلام ، عَلَم الاولیاء ، محی الدین ابومحمد  عبد القادر بن ابو صالح عبد اللہ بن جنگی دوست جیلانی ، حنبلی ، بغداد کے شیخ ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء، جلد 20 ،صفحہ 439، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   اسی کتاب میں امام سمعانی علیہ الرحمۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’قال السمعاني: كان عبد القادر من أهل جيلان إمام الحنابلة، وشيخهم في عصره ‘‘یعنی : امام سمعانی کہتے ہیں : شیخ عبدالقادر جیلان کے رہنے والے ہیں ، اپنے زمانے کے حنبلیوں کے امام اور ان کے شیخ ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء،جلد 20، صفحہ 441، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   امام اہلسنت ، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  سے سوال ہو اکہ کیاحضرت قطب الاَقطاب شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پہلے حنفی تھے ، بعد میں حنبلی ہوئے؟ تو جواباً امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا :’’حضور ہمیشہ سے حنبلی تھے اور بعد کو جب عین الشریعۃ الکبری تک پہنچ کر منصب اجتہادِمطلق حاصل ہوا، مذہب حنبل کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر اس کے مطابق فتوی دیا کہ حضور محی الدین اور دین متین کے یہ چاروں ستون ہیں، لوگوں کی طرف سے جس ستون میں ضعف آتا دیکھا اس کی تقویت فرمائی ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، جلد 26، صفحہ 433، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

   فقہِ حنبلی  کے مطابق نماز  میں تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین سنت ہے، جیسا کہ  امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کے بیٹے عبد اللہ بن احمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’سالت ابی عمن یتقدم فی الصلوۃ : رجل یحفظ القرآن لا یرفع یدیہ اذا رکع او رجل یرفع لا یحفظ القرآن ؟ قال : یؤم القوم اقرؤھم لکتاب اللہ ، وینبغی لہ ان یرفع یدیہ ؛ لانہ سنۃ ‘‘یعنی : میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ ایک شخص حافظ قرآن ہے، مگر رکوع میں جاتے ہوئے رفع یدین نہیں کرتا اور دوسرا شخص حافظ قرآن تو  نہیں مگر رفع یدین کرتا ہے، تو ان دونوں میں سے امام کسے بنایا جائے ؟ فرمایا : قوم کی امامت وہ کروائے جو قرآن پاک کو زیادہ پڑھنے والا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ رفع یدین کرے، کیونکہ یہ سنت ہے ۔(مسائل احمد روایۃ ابنہ عبد اللہ  ،باب صفۃ الصلوۃ ، المکتب الاسلامی ، بیروت)

   عند الاَحناف  تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین نہیں کیا جائے گا ،اَحناف کا یہ عمل بھی کثیر احادیث سے مؤید و ثابت ہے ،یہاں فقط ایک حدیث پاک  ذکر کی جاتی ہے، جسے امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی (المتوفی : 279ھ)   نے اپنی جامع میں حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے طریق سے نقل کیاہے  :’’قال عبداللہ ابن مسعود الااصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الافی اول مرۃ‘‘ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکی طرح نماز نہ پڑھاؤں،پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں ہاتھ نہ اٹھائے ۔(جامع الترمذی ،ابواب الصلاۃ ،باب رفع الیدین عند الرکوع،جلد1،صفحہ59، کراچی)

   مذکورہ حدیث کو روایت کرنے کے بعد حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ حدیث ابن مسعود حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان واھل الکوفۃ‘‘ترجمہ:حدیث عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث حسن ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین میں سے متعدد علماء کا یہی مذہب تھا اور امام سفیان اور علمائے کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔(جامع الترمذی ،ابواب الصلاۃ ،باب رفع الیدین عند الرکوع،جلد1،صفحہ59، کراچی)

   نیز عشرہ مبشرہ سمیت کثیر صحابہ کرام اور تابعین   فقہا اسی کے قائل تھے  کہ تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین نہیں کیا جائے گا، جیساکہ صاحبِ عمدۃ القاری علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’وروی عن ابن عباس انہ قال : ان العشرۃ الذین شھد لھم رسول اللہ بالجنۃ ماکانوا یرفعون ایدیھم الا لافتتاح الصلاۃ۔

   قلت فعلی ھذا مذھب ابی حنیفۃ مذھب جماعۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم ؛ اما من الصحابۃ : فابوبکر الصدیق ، وعمر ، و عثمان ، و علی، و طلحۃ بن عبیداللہ ، والزبیر بن العوام ، وسعد بن ابی وقاص، و سعید  بن زید، و عبد الرحمٰن بن عوف، و أبوعبیدہ عامر ابن عبد اللہ بن الجراح، فھٰؤلاء العشرۃ ، و عبد اللہ بن مسعود ، و جابر ابن سمرۃ، و البراء بن عازب ، و عبد اللہ بن عباس، و عبد اللہ بن عمر ، و ابوسعید الخدری ، ومن التابعین و من بعدھم :مذھب ابراھیم النخعی، و ابن ابی لیلیٰ، و علقمۃ، والأسود، والشعبی، و ابی إسحاق، و خیثمۃ، و قیس ، والثوری، و مالک، وابن القاسم، و المغیرۃ ، و وکیع، و عاصم بن کلیب، وجماعۃ آخرین‘‘ ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ وہ دس صحابہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنت کی بشارت دی  سوائے تکبیر تحریمہ کے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے ۔ میں کہتا ہوں یہی مذہب امام ابو حنیفہ کا ہے، جماعت صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کا مذہب ہے۔ صحابہ میں سے حضرت ابوبکر صدیق ، عمر ، عثمان ،  علی،  طلحۃ بن عبیداللہ ، الزبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص،  سعید  بن زید،  عبد الرحمٰن بن عوف، ابو عبیدہ عامر ابن عبد اللہ بن الجراح، یہ دس عشرہ مبشرہ ہوئے ،اور  عبد اللہ بن مسعود ،  جابر ابن سمرۃ،  البراء بن عازب ،  عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر ،  ابوسعید الخدری، جبکہ تابعین اور ان کے بعد والوں   میں سے ابراھیم النخعی، ابن ابی لیلیٰ، علقمہ، اسود، شعبی، ابو اسحاق،  خیثمہ،  قیس ، سفیان ثوری، امام  مالک، ابن القاسم، مغیرۃ ،  وکیع،  عاصم بن کلیب، ودیگر جماعت (رضی اللہ عنہم اجمعین ) کا مذہب ہے۔(شرح سنن ابی داود، باب رفع الدین، جلد 3، صفحہ 303،مطبوعہ ملتان)

   ہر شخص فقہی مسائل میں اپنے امام کی تقلید کا پابند ہے جیسا کہ الملل والنحل میں ہے :" أن علماء الفريقين: لم يجوزوا أن يأخذ العامي الحنفي إلا بمذهب أبي حنيفة، والعامي الشافعي إلا بمذهب الشافعي‘‘ یعنی : دونوں فریق کے علما یہ جائز نہیں رکھتے کہ عامی حنفی مذہبِ ابو حنیفہ یا عامی شافعی مذہبِ شافعی کے سوا دوسرے  مذہب پر عمل کرے ۔ (الملل والنحل ، جلد 2، صفحہ10 ، مؤسسۃ الحلبی ،بیروت)

   امام اہلسنت ، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’امام مرشدُ الانام محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں :’’مخالفتہ للمقلد متفق علی کونہ منکرا بین المحصلین ‘‘ترجمہ : تمام منتہی فاضلوں کا اجماع ہے کہ مقلِّد کا  اپنے امام مذہب کی مخالفت کرنا شنیع و واجب الانکار ہے ۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 6، صفحہ 706، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم