مجیب:مفتی
محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7341
تاریخ اجراء:10ذی القعدہ 1442ھ/21 جون
2021
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے
میں کہ گھروں اور مساجد وغیرہ عمارات کی
دیواروں پر ’’یا محمد‘‘ لکھا ہوتا ہے
،کیا یہ شرعاً درست ہے ؟ اور اگر پہلے سے کسی
پینٹ سے لکھا ہو یا تختی وغیرہ لگی ہو
،تو اب اس کا کیا کیا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو’’یامحمد‘‘کےالفاظ کےساتھ پکارنا،شرعا درست نہیں
،کیونکہ قرآن پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس
طرح پکارنےسےمنع کیاگیاہے،جیسےہم ایک دوسرےکواس کا نام
لےکرپکارتےہیں ۔
لہذا’’یامحمد‘‘کہنےکی
بجائےیارسول اللہ،یاحبیب اللہ،یانبی اللہ
وغیرہ الفاظ کےساتھ نداکی جائےاورلکھتے وقت بھی
اسی احتیاط کو ملحوظ رکھا جائے اور
اگر گھر یا مسجد وغیرہ کی
دیوارپر’’یامحمد‘‘لکھاہو،تواسےمٹاکریااگرکوئی تختی
لگی ہو،تواسےاتارکر’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم‘‘کی تختی لگائی جائےاوراسےلگانےمیں یہ
احتیاط بھی کی جائےکہ اسےایسی جگہ پرہی
لگایاجائے،جہاں کسی قسم کی بےادبی کااحتمال نہ ہواوربارش
وغیرہ کاپانی اس تختی سےلگ کرزمین پرنہ گرےاورجہاں
یہ احتمال موجودہو،جیسےمکان کی باہروالی دیوارکہ
جہاں اس مقدس تحریرپربارش کاپانی لگ کرزمین پر
گرےگا،توایسی جگہ لگانےسےاجتناب کیاجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کوپکارنےکےادب کےبارےمیں قرآن پاک میں ہے﴿لَا تَجْعَلُوۡا
دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ
بَعْضِکُمۡ بَعْضًا﴾ترجمہ:(اےلوگو!)رسول
کےپکارنےکوآپس میں ایسانہ بنالو،جیسےتم میں سےکوئی
دوسرےکوپکارتاہے۔ (پارہ18،سورۃالنور،آیت63)
اس آیت کے تحت تفسیر ابن
کثیر میں ہے :’’عن ابن عباس :کانوا یقولون’’یا
محمد،یا ابا القاسم ‘‘فنھا ھم اللہ عز وجل عن ذلک
،اعظامالنبيه،صلوات اللہ وسلامه عليه قال:فقالوا:يارسول اللہ،يانبی اللہ“ترجمہ:حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو’’یامحمد،یااباالقاسم‘‘ کہتےتھے،تواپنےنبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی خاطراللہ عزوجل
نےانہیں اس سےمنع فرمادیا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
فرماتےہیں کہ پھرصحابہ کرام ’’یارسول اللہ
،یانبی اللہ‘‘ کہاکرتےتھے۔(تفسیرابن
کثیر،تحت ھذہ الایۃ،ج6،ص88،مطبوعہ دارطیبہ)
اسی آیت کےتحت’’لباب التاویل
فی معانی التنزیل‘‘اور’’تفسیر ابن عباس‘‘میں ہے،واللفظ
للثانی:’’ای لاتدعواالرسول باسمه ’’يامحمد‘‘﴿کَدُعَآءِ
بَعْضِکُمۡ بَعْضًا﴾ اسمه ولكن عظموه ووقروه وشرفوه
وقولوا له يا نبی اللہ ويارسول اللہ“ترجمہ:یعنی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کےنام کےساتھ’’یامحمد‘‘ کہہ
کرنہ پکارو،جیسےتم میں سےکوئی دوسرےکواُس کےنام سےپکارتاہے،بلکہ
ان کی تعظیم وتوقیرو عزت کرواوریوں کہو’’یانبی
اللہ‘‘اور’’یارسول اللہ۔‘‘ (تفسیرابن عباس،تحت ھذہ
الایۃ،ج1،ص300،مطبوعہ بیروت)
نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کانامِ پاک لےکرنداکرنےکےبارےمیں اعلی حضرت امام
احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن ارشادفرماتےہیں:” یہاں اُس
کایہ بندوبست فرمایاکہ اس امتِ مرحومہ پراس نبی کریم
علیہ افضل الصلوۃوالتسلیم کانام پاک لےکرخطاب کرناہی حرام
ٹھہرایا،قال
اللہ تعالی﴿ لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ
الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ
بَعْضًا﴾اللہ
تعالی نےفرمایا:رسول کاپکارناآپس میں ایسانہ
ٹھہرالوجیسےایک دوسرےکو پکارتےہوکہ اےزید،اےعمرو،بلکہ یوں
عرض کرو:یارسول اللہ،یانبی
اللہ،یاسیدالمرسلین،یاخاتم النبیین،یاشفیع
المذنبین،صلی اللہ تعالی علیک وسلم وعلی اٰلک
اجمعین۔۔۔لہذاعلماءتصریح
فرماتےہیں،حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کونام
لےکرندا کرنی حرام ہےاورواقعی محلِ انصاف ہے،جسےاس کامالک
ومولی تبارک وتعالی نام لےکرنہ پکارے،غلام کی کیامجال کہ
راہِ ادب سےتجاوزکرے۔۔۔یہ مسئلہ مہمہ جس سےاکثراہل زمانہ
غافل ہیں،نہایت واجب الحفظ ہے۔“(فتاوی
رضویہ،ج30،ص156تا158،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
اسی بارےمیں فتاوی شارح
بخاری میں ہے:”یہ درود شریف کاصیغہ’’صلی اللہ علیک
یامحمد‘‘قابلِ
اعتراض ہے،نام نامی لےکر پکارنا،جائزنہیں۔“ (فتاوی شارح بخاری،ج1،ص290،مطبوعہ
برکات المدینہ)
اعلی حضرت امام احمدرضان خان علیہ
رحمۃالرحمن سےسوال ہواکہ مسجدکےمحراب کےدائیں طرف کاتب
نےلکھا’’یااﷲ‘‘اوردوسری طرف’’یامحمد‘‘نقش
کردیا،تواس کاجواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا:”یہ بات یادرہےکہ
حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کانام پاک لےکرندانہ
چاہیئے،بلکہ اس کی جگہ’’یارسول اللہ‘‘ہواوردیوارپرکندہ
کرنےسےبہتریہ ہےکہ آئینہ میں لکھ کرنصب کریں۔واللہ تعالی اعلم۔“(فتاوی
رضویہ،ج14،ص368تا369،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
کسی حاجت کےتحت کاغذوغیرہ سےاللہ
ورسول کانام مٹانا،جائزہے،چنانچہ بحرالرائق میں ہے:”ولوكان فيه اسم اللہ تعالى
اواسم النبی عليه السلام فيجوزمحوه ليلف فيه شيء“ترجمہ: اگرکسی
کاغذمیں اللہ تعالی یانبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کانام لکھاہو،تواس کاغذمیں کچھ لپیٹنے کےلیےاس
سےاللہ ورسول کانام مٹانا، جائزہے۔(بحرالرائق،کتاب
الطھارۃ،باب الحیض،ج1،ص351،مطبوعہ کوئٹہ)
دیواروں
پرقرآن مجیدکی کوئی سورۃیااللہ تعالی کےنام
وغیرہ مقدس تحریرات لکھنےکےمتعلق اعلی حضرت امام احمدرضاخان
علیہ رحمۃ الرحمٰن سےسوال ہوا،توآپ علیہ الرحمۃ
نےجواباً ارشاد فرمایا:”دیواروں پرکتابت سےعلماءنےمنع
فرمایاہے”کمافی الھندیۃوغیرھا“اس
سے احتراز ہی اسلم ہے،اگرچھوٹ کرنہ بھی گریں،توبارش میں
پانی ان پرگزرکرزمین پرآئےگااورپامال ہوگا،غرض مفسدہ کااحتمال
ہےاورمصلحت کچھ بھی نہیں،لہذااجتناب ہی چاہیے،واللہ تعالی اعلم۔“ (فتاوی
رضویہ،ج23، ص 384، رضافاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟