Milad Ke Moqe Par Sajawat Karna Kya Fuzool Kharchi Hai ?

عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر سجاوٹ کرنا کیسا؟کیا یہ فضول خرچی تو نہیں؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-5426a

تاریخ اجراء:06صفرالمظفر1437ھ19نومبر2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پرہمارے گاؤں کی گلیوں اور بازاروں میں چراغاں کیاجاتاہے،جس میں30سے35لاکھ کاسامان ایک ہی بارخریداجاچکاہےاورپھرہرسال چارسے آٹھ لاکھ روپے مزیدجمع کرکےساراانتظام کیاجاتاہے،جس سےہمارامقصود اپنی آخرت کی بہتری اوراپنے دلوں میں عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اُجاگر کرنا ہوتاہے، جس کافائدہ یہ ہواکہ گاؤں کے بچے بچے کے دل میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی عظمت داخل ہوچکی ہےاوراس سجاوٹ میں مسجدنبوی،خانۂ کعبہ اوربالخصوص گنبدخضرا کی شبیہ بھی بنائی جاتی ہے۔آپ سےیہ پوچھنا ہے کہ:

(1)کیاگلیوں اوربازاروں میں سجاوٹ کرناشرعاََدرست ہے یانہیں ؟

(2)ہمارایہ ساراانتظام کرنااسراف میں توداخل نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1)پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی خوشی میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے گلیوں اور بازاروں میں چراغاں کرنااورسجاوٹ کرنا،نیزگنبدخضرا،مسجدنبوی اورخانۂ کعبہ کی شبیہ بنانا  شرعاًجائزومستحسن ہے ،کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ عزوجل کی رحمت ہیں اوراللہ عزوجل نے اپنی رحمت پرخوشی منانے کاحکم ارشادفرمایاہے۔نیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کی نعمت بھی ہیں اوراللہ عزوجل نے اپنی نعمت کا چرچاکرنے کاحکم قرآن کریم میں دیاہےاور خوشی کرنے کے انداز کادارومدارعرف پرہے۔ہمارے زمانہ میں چونکہ خوشی کے موقع  پر(مثلاً:شادی،سالگرہ اور14اگست کے موقع پر) لائیٹنگ کی جاتی ہے،گھروں اورگلیوں وغیرہ کو سجایاجاتاہے، لہٰذاسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے صدقہ تمام نعمتیں ملی ہیں ،اُن کی ولادت کی خوشی میں بھی اگرچراغاں کیاجائے ، تویہ بالکل جائزہے۔

    قرآن کریم میں ہے :﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔

(پاره30،سورۃالضحی،آیت11)

    ایک اورمقام پرفرمایا:﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے ليے۔

(پاره 17،سورۃالانبیاء،آیت107)

    اللہ کے فضل اوررحمت پرخوشی کرنے کاحکم ہے۔ جیساکہ اللہ عزوجل کافرمان عالیشان ہے:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا  ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ﴾ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔

(پاره 11،سورہ یونس،آیت58)

    حضرت ابوالعاص کی والدہ بیان کرتی ہیں:’’شھدت آمنۃ لما ولدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلما ضربھا المخاض نظرت إلی النجوم تدلی، حتی إنی أقول لتقعن علی، فلما ولدت، خرج منھا نور أضاء لہ البیت الذی نحن فیہ والدار، فما شیء أنظر إلیہ، إلا نور‘‘ترجمہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہاکے پاس موجودتھی،جب آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ولادت کاوقت قریب ہواتومیں نے دیکھاکہ ستارے اتنے قریب ہوگئے کہ میں نے کہاکہ ستارے مجھ پرگرجائیں گے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی توایسانورنکلا جس سے ہماراکمرہ اورپوراگھرروشن ہوگیا،پس میں جس چیزکی طرف بھی دیکھتی نورہی نظرآتا۔

(المعجم الکبیرللطبرانی،باب الیاء،أم عثمان بنت ابی العاص،ج25،ص 147،مطبوعه القاھرہ)

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی(متوفی1367ھ) فرماتے ہیں:’’روضہ منورہ کی صحیح نقل بناکر بقصد تبرک رکھنا جائز ہے۔ جس طرح کاغذ پر اس کا فوٹو بہت سے مسلمان رکھتے ہیں، یونہی اگر پتھر وغیرہ کی عمارت بنائیں، تو اس میں اصلا حرج نہیں ۔ جانورکی تمثال حرام وناجائز ہے۔ غیر ذی روح کی تصویر میں کوئی قباحت نہیں ۔ نقشہ نعلین مبارک کو ائمہ و علماء جائز بتاتے اور اس کے مکان میں رکھنے کو سبب برکت جانتے ہیں ۔ شبیہ روضہ کا بھی وہی حکم ہے۔‘‘                                

(فتاوٰی امجدیہ،جلد4،صفحہ25،مکتبہ رضویہ ،کراچی)

    اور پھر مسلمان نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں چراغاں کرنے کو اچھا سمجھتے ہیں اورجس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہی ہوتا ہے، لہذا ولادت پاک کی خوشی میں چراغاں کرنا بھی اچھا ہے۔درمختار میں ہے:’’ للعرف۔وقال علیہ الصلاۃ والسلام :ما رآہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن‘‘ترجمہ:(اورحمام کواجارہ پردیناجائزہے) عرف کی وجہ سے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ كے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے۔

(درمختار مع رد المحتار ،کتاب الاجارہ،ج6، ص 52 ،دارالفکر،بیروت)

    مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اور رحمت الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔‘‘ایک اور مقام پر فرماتے  ہیں:’’ قرآن کریم  میں ارشاد  ہوا ، رب تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرواور حضور علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے کہ رب تعالیٰ نے اس پر احسان جتایا ہے، اس کا چرچا کرنا اسی آیت پر عمل ہے۔ آج کسی کے فرزند پیدا ہو تو ہر سال تاریخ پیدائش پر سالگرہ کا جشن کرتا ہے۔کسی کو سلطنت ملی تو ہر سال اس تاریخ پر جشن جلوس مناتا ہے ،تو جس تاریخ کو دنیا میں سب سے بڑی نعمت آئی اس پر خوشی منانا کیوں منع ہو گا؟‘‘

          (جاء الحق، ص 221،مکتبہ اسلامیہ، لاھور)

    یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جو چراغاں کرنا ہو ، اس میں ڈائریکٹ مین تاروں سے بجلی حاصل نہ کی جائے ،بلکہ اپنے میٹروں سے بجلی لی جائے ۔ اس طرح بجلی لینا عرفاً چوری کہلاتا اور قانوناً جرم بھی ہے ۔لہذا ایسا کرنا ،ناجائز ہے۔

    (2)اورآپ کاچراغاں اورسجاوٹ کرنے میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جومال خرچ ہو،وہ اسراف میں بالکل بھی داخل نہیں ، کیونکہ نیکی کے کاموں میں مال جتنابھی خرچ کیاجائے ، اس کواسراف نہیں کہاجاسکتا۔

    تفسیرکشاف اورتفسیر مدارک التنزیل میں ہے:’’لا خیر فی الإسراف، لا إسراف فی الخیر‘‘ترجمہ: اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں ۔

(ملخصاََ،تفسیرکشاف،سورۃالفرقان،تحت الآیۃ67،ج3،ص293،دارالکتاب الاعرابی،بیروت)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن(متوفی1340ھ)فرماتے ہیں :’’علماء فرماتے ہیں:’’لَاخَیْرَ فِی الْاِسْرَافِ وَلَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْرِ‘‘یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں ۔ جس شے سے تعظیمِ ذکر شریف مقصود ہو ، ہر گز ممنوع نہیں ہوسکتی ۔امام غزالی  علیہ رحمۃ اللہ الوالینے اِحیاء ُ العلوم شریف میں سید ابوعلی رود باری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے نقل کیا کہ ایک بندہ  صالح نے مجلسِ ذکر  شریف ترتیب دی اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں ۔ ایک شخص ظاہربین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے۔بانیِ مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع مَیں نے غیرِ خدا کے لئے روشن کی ہو وہ بجھا دیجئے۔ کوششیں کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی ۔‘‘

 (احیاء علوم الدین،الباب الاول ،ج2،ص20،دارالمعرفۃ،بیروت)

(ملفوظات اعلی حضرت ،ص174،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم