Barsi Kis Din Karna Zaroori Hai ?

 

برسی کس دن کرنا ضروری ہے ؟

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2976

تاریخ اجراء: 13صفر المظفر1446 ھ/19اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مرحوم کی برسی جس دن بن رہی ہو اسی دن کرنا ضروری ہے یااس کے اگلے دن بھی کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرحوم کی برسی جس دن بن رہی ہو اسی دن کرنا ضروری نہیں ،اس سے ایک دن پہلے یا بعد میں، کسی دن بھی کی جاسکتی ہے،کیونکہ برسی،تیجہ اورچالیسواں وغیرہ دراصل ایصال ثواب کی ہی مختلف   صورتیں ہیں،اور ایصال ثواب کسی دن،کسی بھی وقت کیا جائے، جائز ہے،ہاں ہمارے یہاں مسلمانوں میں یہ رائج ہے کہ  اپنی سہولت  اوردوسروں کویاددلانے  وغیرہ کے لیےاس کے لئے  ایک خاص  دن مقرر کیاجاتا ہے تاکہ پہلے سے ہی لوگوں کومعلوم رہے کہ فلاں دن ایصال ثواب کی محفل ہوگی  اور اسی دن برسی وغیرہ کی جاتی ہے اور یہ دن مقرر کرنا بھی جائز ہے جبکہ یہ گمان نہ ہو کہ اس کے علاوہ دنوں میں ایصال ثواب ہوگا ہی نہیں ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:” امواتِ مسلمین کو ایصال ثواب بے قید تاریخ خواہ بحفظ تاریخ معیّن مثلاً روزِ وفات جبکہ اس کاالتزام بنظرِ تذکیر وغیرہ مقاصد صحیحہ ہو،نہ اس خیال جاہلانہ سے کہ تعیین شرعاً ضروریا وصولِ ثواب اسی میں محصور، یو نہی عرس مشائخ کہ منکرات شرعیہ مثلاً رقص ومزامیر وغیر سے خالی ہو، اسی طرح اولیائے کرام وسائل بارگاہ ونوابِ حضرت احیائے معنی واموات صورۃ قدست اسرارہم سے استعانت واستمداد جبکہ بطور توسّل وتوسط وطلبِ شفاعت ہو، نہ معاذاﷲ بظنِ خبیث، استقلال وقدرت ذاتہ، جس کا توہم نہ کسی مسلم سے معقول نہ مسلمان ہونے پر سوئے ظن مقبول، یہ سب امور شرعاً جائز وروا ومباح ہیں جن کے منع پر شرع مطہر سے اصلاً دلیل نہیں۔(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ421،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”(ترجمہ)الحاصل حق یہ ہے کہ مذکورہ تخصیصات سبھی تعینات عادیہ سے ہیں جو ہر گز کسی طعن اور ملامت کے قابل نہیں، اتنی بات کو حرام اور بدعت شنیعہ کہنا کھلی ہوئی جہالت اورقبیح خطا ہے۔مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب کےبھائی شاہ رفیع الدین دہلوی نے اپنےفتوے  میں کیا ہی عمدہ انصاف کی بات لکھی ہے۔  ان کی عبارت یُوں نقل کی گئی ہے:

   سوال: تخصیص ماکولات درفاتحہ بزرگان مثل کھچڑادر فاتحہ امام حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہ وتوشہ درفاتحہ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ذلک وہمچناں تخصیص خورندگان چہ حکم وارد؟“ترجمہ:سوال: بزرگوں کی فاتحہ میں کھانوں کو خاص کرنا، مثلا امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی فاتحہ میں کھچڑا، شاہ عبدالحق رحمۃ اﷲ علیہ کی فاتحہ میں توشہ و غیر ذلک، یوں ہی کھانے والوں کوخاص کرنا، ان سب کا کیا حکم ہے؟

   جواب: فاتحہ وطعام بلاشبہہ از مستحسنات ست وتخصیص کہ فعل مخصص است باختیار اوست کہ باعث منع نمی تواند شد این تخصیصات ازقسم عرف وعادت اند کہ بمصالح خاصہ ومناسبت خفیہ ابتداءً بطہور آمدہ ورفتہ رفتہ شیوع یافتہ“ترجمہ:جواب: فاتحہ اور طعام بلاشبہہ مستحسن ہیں،اور تخصیص جو مخصص (خاص کرنے والے) کا فعل ہے، وہ اس کے اختیار میں ہے،ممانعت کا سبب نہیں ہوسکتا، یہ خاص کرلینے کی مثالیں ،سب عرف اور عادت کی قسم سے ہیں جو ابتداء میں خاص مصلحتوں اور خفی مناسبتوں کی وجہ سے رونما ہوئیں پھر رفتہ رفتہ عام ہوگئیں۔

   ثم اقول: بلکہ اگر یہاں خود کوئی دینی مصلحت نہ ہو (تو بھی حرام نہیں ہوسکتا) کیونکہ مصلحت نہ ہونے کا معنٰی یہ نہیں کہ مفسدہ موجودہ ہے کہ باعثِ انکار ہوجائے ورنہ مباح کہا ں جائے گا؟ امام احمد مسند میں بسندِ حسن ایک صحابیہ خاتون رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی ہیں  کہ حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنیچر کا روزہ نہ تیرے لیے نہ تیرے اوپر۔علماء نے اس کی شرح میں فرمایا: نہ تیرے لیے اس میں کسی ثواب کی زیادتی ہے نہ اس میں تجھ پر کوئی عتاب اور ملامت ہے۔واضح ہوا کہ بے وجہ تخصیصِ کے خاص کرلینا اگر مفید نہ ہوتو مضربھی نہ ہوگا، اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ہاں جو عامی شخص اس تعین عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصال ثواب ہوگا ہی نہیں، یا جائز نہیں، یا ان ایام میں ثواب دیگرا یام سے زیادہ کامل و وافر ہے، تو بلاشبہہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اورا س گمان میں خطا کار اور صاحب باطل ہے،لیکن اتنا گمان اصل ایمان میں خلل نہیں لاتا، نہ ہی کسی قطعی عذاب اور حتمی وعیدکا سبب ہوتا ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ590،591،592 ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم