Azan o Iqamat Se Pehle Durood Shareef Parhna Kaisa?‎

اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:pin:5731

تاریخ اجراء:17ذیقعدۃ الحرام1439ھ/31جولائی2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں  اذان و اقامت سے پہلے اور اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھا جاتا ہے ۔بعض لوگ اس سے منع کرتے ہیں اور جب انہیں کہا جائے کہ شریعت کی طرف سے منع نہیں ،اس وجہ سے یہاں بھی پڑھ سکتے ہیں،تو آگے سے کہتے ہیں کہ اگر ہر جگہ اسی کو دلیل بناؤ گے ،تو پھرنمازمیں  سجدے دو کیوں کرتے ہو؟زیادہ سے منع تو نہیں کیا گیا ،لہذا سجدے بھی زیادہ کیا کرو تاکہ تمہیں ثواب زیادہ ملے۔اس وجہ سے گاؤں کے کافی لوگ پریشان ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ۔براہِ کرم اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں ،تاکہ لوگوں کو مطمئن کیا جا سکے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دیگر اوقات کی طرح اذان و اقامت سے پہلے اور اذان کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا ،نہ صرف جائز ،بلکہ مستحب اور باعثِ ثواب بھی ہے۔اس پر درج ذیل دلائل موجود ہیں :

     (1)اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ان اللہ وملٰئکتہ یصلون علی النبی یٰا یھا الذین اٰمنو صلوا علیہ وسلموا تسلیماترجمہ:بے شک اللہ اور فرشتے غیب بتانے والے (نبی )پر درود بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔(پ22،س الاحزاب،آیت56)

     اس آیت ِکریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ با برکات پرکسی قید کے بغیر دُرود و سلام پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایاہے ۔یہ نہیں فرمایا کہ اذان و اقامت سے پہلے اور اذان کے بعد  نہ پڑھو اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی نے قید لگائی ہے ،تو کسی اور کے لئے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ خدا تعالی کے مطلق احکام میں قیدیں جوڑے کہ فلاں وقت میں پڑھو اور فلاں فلاں وقت میں نہ پڑھو۔

     مطلق(یعنی جس میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے کوئی قید نہیں، ایسے حکم) پر عمل کرنے کے حوالے سے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عموم واطلاق سے اِستدلال زمانہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم سے آج تک علماء میں شائع وذائع،یعنی جب ایک بات کوشرع نے محمود فرمایا،توجہاں اورجس وقت اور جس طرح وہ بات واقع ہوگی،ہمیشہ محمودرہے گی،تاوقتیکہ کسی صورت ِخاصہ کی مُمانعت خاص شرع سےنہ آجائے۔ مثلاً:مطلق ذکرِالٰہی کی خوبی قرآن وحدیث سے ثابت،توجب کبھی،کہیں،کسی طورپرخدا کی یاد کی جائے گی،بہترہی ہوگی،ہرہرخصوصیت کاثبوت شرع سے ضرورنہیں،مگرپاخانہ (ٹوائلٹ)میں بیٹھ کرزبان سے یادِالٰہی کرناممنوع،کہ اس خاص صورت کی برائی شرع سے ثابت۔ غرض جس مطلق کی خوبی معلوم،اس کی خاص خاص صورتوں کی جداجداخوبی ثابت کرنا ضرورنہیں، کہ آخروہ صورتیں اسی مطلق کی توہیں،جس کی بھلائی ثابت ہوچکی،بلکہ کسی خصوصیت کی برائی ماننایہ محتاج دلیل ہے۔

     مسلم الثبوت میں ہے:’’شاع وذاع احتجاجھم سلفاً وخلفاً بالعمومات من غیرنکیر‘‘متقدمین اورمتاخرین علماء کاعمومات سے استدلال کرنا ،بغیرکسی انکار کے معروف اوررائج ہے۔

     پس بحکم  ِاطلاق جس جس طریقہ سے ان کی یاد کی جائے گی،حسن ومحمود ہی رہے گی اورمجلس ِمیلاد وصلوٰۃ بعدِاذان وغیرہما کسی خاص طریقے کے لئے ثبوتِ مطلق کے سوا کسی نئے ثبوت کی ہرگزحاجت نہ ہوگی، ہاں جوکوئی ان طُرُق کوممنوع کہے،وہ ان کی خاص ممانعت ثابت کرے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج26،ص528تا530،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     (2)جب تک شریعت کی طرف سے کسی چیز کی ممانعت کا حکم نہ ہو،تو اس وقت تک اشیاء میں اصل اباحت ہوتی ہے ۔ جوکوئی کسی چیز کی حرمت یا کراہت ثابت کرے ،تو اس پر لازم ہے کہ دلیل پیش کرے ،ورنہ بغیر دلیل ِشرعی کے مباح چیز کو حرام کہہ کر اللہ تعالی کی ذات پر افتراء نہ باندھے اور اذان و اقامت سے پہلے اور بعد درود و سلام پڑھنے کی قرآن و حدیث میں کہیں ممانعت نہیں ،لہذا یہ جائز ہے ۔

     اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ وما سکت عنہ ،فھو مما عفا عنہ‘‘ترجمہ:حلال وہ ہے ،جو اللہ تعالی  نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے ،جو اللہ تعالی  نے اپنی کتاب میں حرام فرما دیا اور جس کے حلال و حرام ہونے کو بیان نہ فرمایا ،تو وہ اللہ تعالی  کی طرف سے معاف ہے ۔(جامع ترمذی،باب ماجاء فی لبس الفراء،ج1،ص303،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

     فتاوی شامی میں ہے:’’لیس الاحتیاط فی الافتراء علی اللہ باثبات الحرمۃ والکراھۃ الذین لا بدلھما من دلیل ،بل فی القول بالاباحۃ التی ھی الاصل‘‘ترجمہ:(بغیر دلیل کے)کسی چیز کو حرام یا مکروہ ثابت کر کے اللہ تعالی  کی ذات پر افتراء باندھنے میں احتیاط نہیں،کہ حرمت اور کراہت کے لئے دلیل درکار ہے،بلکہ احتیاط اباحت ماننے میں ہے،جو(اشیاء میں )اصل ہے۔                     (فتاوی شامی ،کتاب الاشربہ،ج10،ص50،مطبوعہ،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

     (3)ہر اچھے  کام سے پہلے ہمیں رب تعالی کی حمد اور درودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور اذان بھی ہر کلمہ گو کے نزدیک  ایک اچھا  فعل ہے، لہذا اس سے پہلے بھی درود و سلام پڑھنا اسی حدیث پر عمل ہے ۔

     چنانچہ تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے:’’کل امر ذی بال لا یبدا فیہ بحمد اللہ والصلاۃ علی،فھو اقطع،ابتر،ممحوق من کل برکۃ‘‘ترجمہ:ہر وہ ذی مرتبہ  کام ،جس کی ابتداء اللہ تعالی کی حمد اور مجھ پر درود ِ پاک بھیج کر نہ کی جائے  ،تو وہ ادھورا، نامکمل اور ہر طرح کی برکت سے خالی ہے ۔(تیسیر شرح جامع صغیر ،ج2،ص211،مطبوعہ،مکتبہ امام شافعی ،ریاض)

     (4)مذکورہ اوقات میں دُرود و سلام پڑھنامسلمانوں میں صدیوں سے رائج ہےاوروہ اسے اچھا ہی سمجھتے ہیں ،جب مسلمان اسے اچھا سمجھتے ہیں ،تو یقیناً یہ اللہ تعالی  کے نزدیک بھی اچھا ہے۔چنانچہ معجم کبیرللطبرانی،ج9،ص112،معجم اوسط،ج4،ص58اور مسند امام احمد بن حنبل کی حدیث مبارکہ ہے:’’ما راہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن‘‘ترجمہ:جسے مسلمان اچھا جانتے ہوں،وہ اللہ عزوجل کے نزدیک بھی اچھا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل،ج6،ص84،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

     (4)بلکہ اذان کے بعد درود بھیجنے کا حکم تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

     چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’اذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول،ثم صلوا علی فانہ من صلی علی صلاۃ صلی اللہ علیہ وسلم بھا عشرا‘‘ترجمہ:جب تم مؤذن کو سنو،تو تم بھی اسی طرح کہو ،جس طرح  وہ کہہ رہا ہے ،پھر مجھ پر درود بھیجو ،کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے،اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔                                (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ،ج1،ص166،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

     فتاوی شامی میں اذان  کے بعد درود پڑھنے کے بارے میں  ہے :’’(ویدعو)ای بعد ان یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما رواہ مسلم وغیرہ‘‘ترجمہ:اور اذان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود بھیجنے کے بعد دعا پڑھے ،مسلم وغیرہ  کی روایت کی وجہ ہے ۔(فتاوی شامی ، ج2،ص84،مطبوعہ،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

     (5)اور اقامت سے پہلے درودِ پاک پڑھنا معجم الاوسط کی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔چنانچہ معجم الاوسط میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سےمروی ،وہ فرماتے ہیں :’’کان بلا ل اذا اراد ان یقیم الصلاۃ ،قال:السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،الصلاۃ رحمک اللہ‘‘ترجمہ:حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ جب اقامت کہنے کا ارادہ کرتے تو عرض کرتے:السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،الصلاۃ رحمک اللہ۔(المعجم الاوسط،ج8،ص372،مطبوعہ،دار الحرمین ،القاھرہ)

     اور فتاوی شامی میں درودِ پاک کے مستحب مواقع بیان کرتے ہوئے  اقامت سے پہلے درود ِ پاک پڑھنے کو بھی شامل کیا  گیا ہے ۔چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ درود پاک کے مستحب مواقع بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’نص العلماء علی استحبا ب صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مواضع :یوم الجمعۃ ولیلتھا  وزید یوم السبت والاحد والخمیس،لما ورد فی کل من الثلاثۃ وعند الصباح والمساء وعند دخول المسجد والخروج منہ وعند زیارۃ قبرہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم وعند الصفاء والمروۃ وفی خطبۃ الجمعۃ وغیرھا وعقب اجابۃ المؤذن وعند الاقامۃ‘‘ترجمہ:علماء کرام رحمہم اللہ السلام نےبعض مواقع پر درودِ پاک پڑھنے کے مستحب ہونے پر صراحت  فرمائی ہے۔ان میں سے چند یہ ہیں :جمعہ کا دن ، اس کی رات اور(مستحب  مواقع میں )ہفتہ ،اتوار اور پیر کو بھی شمار کیا گیا ہے ،کیونکہ ان تینوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے اور  صبح و شام ،مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کے وقت ،صفا مروہ پر،جمعہ کے خطبے اور اس کے علاوہ دیگر خطبوں میں ،مؤذن کی اذان کا جواب دینے کے بعد اور اقامت کے وقت ۔                         (فتاوی شامی ،کتاب الصلاۃ،ج1،ص281،مطبوعہ، مکتبہ حقانیہ،پشاور)

     ان دلائل سے واضح ہو گیا کہ مذکورہ اوقات میں درود سلام پڑھنا جائز ہے اور اس سے منع کرنا قرآن و حدیث اور فقہاء کی کئی نصوص کے خلاف ہے۔لہذا  اس سے منع کرنا کسی بھی صحیح العقیدہ سنی کا کام نہیں۔

     البتہ درود و سلام پڑھنے والوں کو یہ احتیاط کرنی  چاہئے کہ درود و سلام پڑھنے کے بعد کچھ دیر سکوت کریں ،پھر اذان یا اقامت کہیں،تا کہ درود شریف اور اذان و اقامت کے درمیان فاصلہ ہو جائے یا درود شریف کی آواز اذان و اقامت کی آواز سے پست رہے ،تا کہ اذان و اقامت میں امتیاز ہو جائے ۔

     اسی بارے میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’درود شریف قبلِ اقامت پڑھنے میں حرج نہیں،مگر اقامت سے فصل چاہئے یا درود شریف کی آواز ،آواز ِ اقامت سے ایسی جدا ہو کہ امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزءِ اقامت نہ معلوم ہو ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج5،ص386،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     اب رہی یہ بات کہ’’نماز میں دو سے زیادہ سجدے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ،لہذا ہر رکعت میں سجدے بھی دو سے زیادہ کرنے چاہئے،تاکہ یہاں بھی ثواب زیادہ ملے‘‘تویہ شرعاً باطل ہے،ایسی باتوں  کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ایک مکمل طریقہ شروع سے آخر تک بیان کیا اور اس کی پابندی کرنے کا حکم دیا اور فرمایا ،’’ایسے نماز پڑھو ، جیسے مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو ۔ ‘‘ اب اگر تین سجدے کریں تو کیا یہ ویسی نماز ہوگی جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھی  اور صحابہ نے دیکھی تھی؟ یقینا تین سجدے والی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دو سجدے والی نماز سے مختلف ہوگی ، تو اس کی ممانعت تو حدیث سے ہوگئی ۔ اب بتائیں کہ کیا درود پاک کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث ہے جس میں فرمایا ہو کہ فلاں طریقے سے پڑھو اور اس کے علاوہ کسی طریقے سے نہ پڑھو۔ ایسی ہرگز ہرگز کوئی روایت نہیں۔ صرف نماز میں ایک مخصوص جگہ مخصوص درود کا فرمایا ہے یعنی التحیات میں درودِ ابراہیمی کا اور وہاں مسلمان اسی کی پابندی کرتے ہیں۔ نماز کے باہر کوئی پابندی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کثرت سے درودپڑھنے کا فرمایا ہے ، تو کسی امتی کہلانے والے کی کیا جرأت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تو کثرت سے پڑھنے کا فرمائیں اور کوئی بے اوقات شخص بغیر کسی دلیل و ثبوت کے کثرت سے درود پڑھنے کو روکتے ہوئے کہے کہ فلاں فلاں نہ پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اجازت کے بعد منع کرنے والے کی بات کو اٹھا کر دیوار پر مار دینا چاہیے اور یہی ہمارے بزرگوں کا حکم ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم