Ambiya Aur Aulia Wisal Ke Baad Madad Kar Sakte Hain?

 

وصال کے بعد انبیائے کرام و اولیائے عظام مدد وحاجت روائی  کر سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-552

تاریخ اجراء: 23 ربيع الاول6144ھ/28ستمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا   انبیائے کرام اور اولیائے عظام  اپنے وصال ظاہری کے بعد   قبروں کے اندر رہتے ہوئےدنیا والوں کی مدد  وحاجت روائی  کر سکتے ہیں یانہیں؟برائے   کرم قرآن پاک ا ور احادیث مبارکہ کےحوالوں کے ساتھ جواب عطا فرما دیجیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ تعالی کے پیارے اور  مقبول بندے  جس طرح دنیاوی زندگی میں اپنےمدد طلب کرنے والوں کی مدد فرماتے  ہیں ،اسی طرح وصال ظاہری کے بعد بھی اللہ عزوجل کی عطا اور قدرت سے اپنی قبروں میں تشریف فرماہوکر دنیا  والوں کی امداد اور حاجت روائی کرسکتے ہیں،اُن کے تصرفات اور مدد طلب کرنے والوں کی امداد  کا سلسلہ بعدِ وصال بھی جاری و ساری   رہتا ہے،کیونکہ رب العزت عزوجل کے جس قرب کے باعث  انہیں  دنیاوی زندگی  میں یہ عظیم  طاقت و  قدرتیں    عطا کی جاتی ہیں ،تو اُس  قرب و منزلت  کا سلسلہ بعدِ وفات بھی باقی رہتا ہے،بلکہ ظاہری  زندگی کے مقابلے میں اِس قرب   میں اضافہ ہوجاتا  ہے۔یہاں ذیل میں قرآن کریم ،احادیث طیبہ اور علمائے کرام کے اقوال سے چند دلائل  پیش کیے جارہے ہیں  جو کہ اس بات  کا  واضح ثبوت ہیں کہ   اللہ عزوجل کے مقبول بندے   اپنے وصال ظاہری کے بعد  بھی مدد طلب کرنے والوں کی مدد فرماتے ہیں اور ان کی حاجات پوری کرتے ہیں ۔

آیت مبارکہ سے دلیل:

   قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ﴾ترجمہ کنز العرفان :’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھےتو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے، پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔“(پارہ 5،سورۃ النساء، آیت64)

   اس آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت و   مدد سے تو بہ قبول ہوتی اور مغفرت کی خیرات ملتی  ہے اورظاہر ہے  کہ یہ مددظاہری  زندگی سے خاص نہیں،بلکہ قیامت تک کے لیےیہ حکم ہے ،یعنی حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی یہی حکم ہے کہ لوگ  حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بذات خود حاضر ہوکر یا حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کا تصور جما کر آپ کی طرف متوجہ ہوں اور شفاعت کی بھیک مانگیں اور حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں۔اسی ضمن میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو:

   چنانچہ تفسیر ثعلبی و تفسیر قرطبی میں مذکورہ آیتِ مبارکہ کے تحت ہے:واللفظ للقرطبی:’’عن علي قال: قدم علينا أعرابي بعد ما دفنا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بثلاثة أيام، فرمى بنفسه على قبر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وحثا على رأسه من ترابه، فقال: قلت يا رسول اللہ فسمعنا قولك، ووعيت عن اللہ فوعينا عنك، وكان فيما أنزل اللہ عليك ﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ الآية، وقد ظلمت نفسي وجئتك تستغفر لي، فنودي من القبر إنه قد غفر لك‘‘ترجمہ:سیدنا  علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہسے روایت ہے،فرماتے ہیں:رسولِ کریم  صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کےتین دن  بعد ایک اعرابی مزار اقدس پر حاضر ہوا اورحضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے لپٹ گیا اور اس کی خاک اپنے سر پر ڈالنے لگا، پھر اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کا قول مبارک سنا اور جو آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد کیا، وہ ہم نے آپ سے یاد کیا اور جو آپ پر نازل ہوا، اس میں یہ فرمان ہے:﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ۔۔۔الایۃ﴾یعنی اور  جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں۔۔الخ اور تحقیق میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی بارگاہ میں حاضرا ہوا ہوں کہ آپ میرے لیے استغفار فرمائیں، تو قبر انور سے آواز آئی  کہ بیشک تجھے بخش دیا گیا ہے۔(تفسیر قرطبی،جلد5،صفحہ266،دار الكتب المصريہ ، قاهرہ)

   مذکورہ بالاآیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:”اس سے چند مسائل معلوم ہوئے۔مسئلہ: اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے لیے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے۔مسئلہ: قبر پر حاجت کے لیے جانا بھی﴿جَآءُ وْکَ﴾ میں داخل اور خیرُ القرون کا معمول ہے ۔مسئلہ: بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا )کے ساتھ ندا کرنا ،جائز ہے۔مسئلہ:مقبُولانِ حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔“(تفسیر خزائن العرفان،صفحہ173، مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

احادیث طیبہ سے دلیل:

   معراج  کے واقعے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلے سے  امتِ محمدیہ کے لیے نمازوں کی کمی کا واقعہ توبہت مشہور ہے کہ جب حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم رب تعالی کی طرف سے پچاس نمازوں کا تحفہ لے کر واپس تشریف لارہے تھے،تو   حضرت  موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا  تھا  کہ آپ کی امت پچاس نمازیں پڑھنے  کی طاقت نہیں رکھتی ،لہٰذا  آپ رب تعالی کی طرف  واپس جائیے اور اپنی امت کے لیے نمازوں میں  کمی کا سوال فرمائیے،جس کی بنا پر پچاس نمازیں کم ہوتے ہوتے پانچ میں تبدیل ہوگئی تھیں ،اور یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے  اپنی  وفات کے    تین ہزار سال بعد امت محمدیہ کی مدد فرمائی۔

   چنانچہ صحیح بخاری میں معراج کی ایک طویل حدیث میں ہے،حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ ثم فرضت علي الصلوات خمسين صلاة كل يوم، فرجعت فمررت على موسى، فقال: بما أمرت؟ قال: أمرت بخمسين صلاة كل يوم، قال: إن أمتك لا تستطيع خمسين صلاة كل يوم، وإني واللہ قد جربت الناس قبلك، وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة، فارجع إلى ربك فاسأله التخفيف لأمتك،فرجعت فوضع عني عشرا، فرجعت إلى موسى فقال مثله، فرجعت فوضع عني عشرا، فرجعت إلى موسى فقال مثله، فرجعت فوضع عني عشرا، فرجعت إلى موسى فقال مثله، فرجعت فأمرت بعشر صلوات كل يوم، فرجعت فقال مثله،فرجعت فأمرت بخمس صلوات كل يوم ،فرجعت إلى موسى، فقال: بم أمرت؟ قلت: أمرت بخمس صلوات كل يوم، قال: إن أمتك لا تستطيع خمس صلوات كل يوم، وإني قد جربت الناس قبلك وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة، فارجع إلى ربك فاسأله التخفيف لأمتك، قال: سألت ربي حتى استحييت، ولكني أرضى وأسلم، قال: فلما جاوزت نادى مناد: أمضيت فريضتي، وخففت عن عبادي‘‘ترجمہ:پھر مجھ پر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں،پھر میں واپس ہوا، تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا ،انہوں نے کہا آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا ہر دن پچاس نمازوں کا،تو  انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ہر دن پچاس نمازوں کی طاقت نہیں رکھے گی،الله کی قسم میں نے آپ سے پہلے لوگوں کی آزمائش کی اور بنی اسرائیل کو تو خوب آزمایا،  لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹیے اور اس سے اپنی امت کے لیے آسانی مانگیئے، چنانچہ میں واپس ہوا ،تو اس نے مجھ سے دس نمازیں کم کردیں، پھر میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا ،تو انہوں نے پھر وہی کہا،میں پھر رب کی طرف لوٹا اس نے مجھ سے دس معاف فرمادیں ،میں پھر جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا ،انہوں نے پھر وہی کہا، میں پھر لوٹا  اس نے مجھ سے دس اور معاف فرمادیں،میں پھر جناب موسیٰ  کی طر ف لوٹا انہوں نے  پھر وہی کہا  ،میں پھر لوٹا   تو مجھے دس نمازوں کا حکم دیا گیا ،میں پھر جناب موسیٰ علیہ السلام  کی طرف لوٹا ،تو انہوں نے پھر وہی کہا ،میں پھر لوٹا  تو مجھے پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ،میں پھر  جناب موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا،  تو انہوں نے  کہا کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا ہر دن پانچ نمازیں،انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ہر دن پانچ نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی،میں نے آپ سے پہلے لوگوں کی آزمائش کرلی ہے اور بنی اسرائیل کو تو میں نے اچھی طرح آزمالیا ہے، آپ پھر اپنے رب کی طرف لوٹیے آپ اس سے اپنی امت کے لیے کمی کا سوال کریں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ میں نے اپنے رب سے اتنے سوال کرلیے کہ اب  حیا آتی ہے، لیکن میں راضی ہوں تسلیم کرتا ہوں،فرمایا کہ پھر میں جب آگے بڑھا تو پکارنے والے نے پکارا کہ میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔(صحیح البخاری،جلد5، باب المعراج،صفحہ52، رقم الحدیث3887،دار طوق النجاۃ)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :’’خیال رہے کہ الله تعالٰی ارحم الراحمین ہےحضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم رؤف ر حیم ہیں، مگر امت محمدیہ پر رحم آیا جلال والے نبی موسیٰ علیہ السلام کو،آخر یہ کیوں؟ اس کی چند وجہیں ہیں: ایک یہ کہ رب چاہتا تھا کہ دکھادیا جاوے کہ الله کے مقبول بندے بعد وفات لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں،دیکھو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات سے تین ہزار سال بعد مسلمانوں کی مدد یہ کی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کرا دیں۔دوسرے یہ کہ بتا دیا جاوے کہ الله تعالیٰ جسے دیتا ہے اپنے مقبولوں کے ذریعہ وسیلہ سے دیتا ہے،رب نے یہ رعایت دی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کر دیں ،مگر موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے۔۔۔ (واضح رہے کہ )یہاں دس دس نمازوں کی معافی کا ذکر ہے،دوسری روایت میں ہے کہ رب نے آدھی نمازیں معاف کردیں،ایک اور روایت میں ہے کہ پانچ پانچ نمازیں معاف فرمائیں یہ آخری روایت مفصل ہے باقی دونوں روایتیں مجمل ہیں یعنی چند بار میں آدھی نمازیں معاف ہوئیں یا دوبار میں دس نمازیں معاف فرمائیں۔تفصیل یہ ہے کہ پانچ پانچ نمازیں معاف ہوئیں۔‘‘     (مرآۃ المناجیح،جلد8،صفحہ138،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   یونہی ایک حدیث مبارک ہے کہ حضرت عمر  فاروق  رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب قحط  پڑا ،تو  ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی   قبر انور پر حاضر  ہوئے اور بارش  سے متعلق آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم سےمدد طلب فرمائی،اس پرحضور علیہ الصلوۃ و السلام ان کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ،اور اُسے میرا سلام کہو اور ان سے کہو کہ وہ بارش سے سیراب ہوں گے۔

   چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث مبارک ہے:” أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى اللہ عليه وسلم فقال: يا رسول اللہ استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنام فقيل له:ائت عمر فأقرئه السلام وأخبره أنكم انکم مستقیون و قل لہ : عليك الكيس ! عليك الكيس ! فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه“ترجمہ: حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں قحط پڑ گیا ،تو ایک شخص نبی پاک صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور  پرحاضر ہوا اور عرض  کیا کہ یا رسول اللہ !  اپنی امت کے لیے پانی طلب  فرمائیے کہ وہ  ہلاک ہو رہےہیں ، تو نبی پاک صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اورارشادفرمایا: عمر کے پاس جاؤ، اسے میرا سلام کہنا اور اسے خبر دینا کہ تم بارش سے سیراب کیے جاؤگے اور عمر سے کہنا کہ (مزید)دانشمندی اختیار کرو ،دانشمندی اختیار کرو۔پس وہ شخص حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا  اور  اپنےخواب کے بارے میں بتایا، تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض گزار ہوئے کہ اے میرے رب ! میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر جس سے عاجز آجاؤں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد6،صفحہ356،رقم الحدیث32002،مطبوعہ رياض)

   اسی طرح حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم سے بعد وصال چند بزرگوں  نے اپنی بھوک اور فاقہ سے متعلق عرضی پیش کی ،جس پر حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حاجت روائی فرمائی اور ایک شخص کے خواب میں تشریف لاکر ان تک کھانا پہنچانے کا حکم فرمایا۔

   چنانچہ امام شمس الدین محمد بن احمدذہبی رحمۃ اللہ علیہ’’ تذکرۃ الحفاظ ‘‘میں لکھتے  ہیں:’’روي عن أبي بكر بن أبي علي قال: كان ابن المقرئ يقول:كنت أنا والطبراني وأبو الشيخ بالمدينة فضاق بنا الوقت فواصلنا ذلك اليوم، فلما كان وقت العشاء حضرت القبر وقلت: يا رسول اللہ الجوع؛ فقال لي الطبراني: اجلس فإما أن يكون الرزق أو الموت، فقمت أنا وأبو الشيخ فحضر الباب علوي ففتحنا له فإذا معه غلامان بقفتين فيهما شيء كثير وقال: شكوتموني إلى النبي صلى اللہ عليه وآله وسلم رأيته في النوم فأمرني بحمل شيء إليكم‘‘ترجمہ:ابو بکر بن ابو علی سے مروی ہے ،فرمایا  کہ ابن مقری فرماتے تھے کہ میں اور امام طبرانی اور ابو الشیخ  مدینہ منورہ میں رہتے  تھے ،ہم پر وقت تنگ ہوگیا(یعنی ہم تنگدستی  کا شکار ہوگئے ،کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا )،تو  ہم نےبغیر کچھ کھائے پیئے ہی روزہ  رکھ لیا ، جب عشا  کا وقت ہوا،تو ہم حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوگئے اور عرض کی  :یا رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم ،ہم بھوک سے بے تاب ہیں،پھر امام طبرانی نے مجھ (ابن مقری)سے کہا کہ یہاں بیٹھ جاؤ،اب یا  تو یہاں سے کھانا ملے گا یا پھر  اسی در پر موت آجائے گی،بہرحال میں اور ابو الشیخ دونوں  وہاں سے کھڑے ہوگئے(اور اپنی قیام گاہ پر آگئے)اتنے میں ایک علوی  شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو ہم نے  دروازہ کھولا، کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ دو غلام ،دو ٹوکروں کے ساتھ موجود ہیں ،جس میں بہت سی چیزیں ہیں،اس علوی نے کہا کہ آپ لوگو ں نے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بھوک سے متعلق شکایت کی تھی،تو میں نے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کا خواب میں  دیدار کیا،حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے مجھے  آپ کے پاس کھانے کی کچھ چیزیں لانے کا حکم دیا(جسے لے کر میں آپ کے پاس حاضر ہوگیا ہوں۔)(تذکرۃ الحفاظ ،جلد3،صفحہ121، دار الكتب العلميہ، بيروت)

اقوالِ علماء سے دلیل:

   اولیائے کرام کے تصرفات زندگی کی طرح بعدِ وفات بھی بدستور باقی رہتے ہیں،اور جس طرح یہ حضرات  اپنی زندگی میں مخلوقِ خدا کی امداد فرماتے ہیں،اسی طرح بعدِ وفات بھی حاجت روائی فرماتے ہیں،چنانچہ امام شیخ الاسلام شہاب  رَملی انصاری علیہ  رحمۃ اللہ الباری کے فتاویٰ میں ہے: ”سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان يا رسول اللہ ونحو ذٰلک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والعلماء والصالحین  فهل ذلك جائز أم لا؟وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا؟ فاجاب  بأن الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء والصالحین جائزۃ وللرسل وللانبیاء والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم لأن معجزة الأنبياء وكرامات الأولياء لا تنقطع بموتهم“ترجمہ:ان سے استفتاء ہواکہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیا ومرسلین واولیا و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسولَ اللہ، یاعلی، یاشیخ عبدالقادر جیلانی) اور ان کی مثل کلمات کہتے ہیں،یہ جائز ہے یا نہیں ؟اور اولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بےشک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعدِ انتقال بھی امداد فرماتے  ہیں،کیونکہ انبیائے کرام کے معجزات اور اولیائے کرام کی کرامات ،ان کی وفات سے منقطع یعنی ختم نہیں ہوتیں۔(فتاویٰ رملی، جلد4،صفحہ382،المكتبة الإسلاميہ)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نےفتاوی رضویہ میں اس موضوع  پر متعدد بزرگان دین کے اقوال نقل فرمائے ہیں:’’امام ابن الحاج مدخل میں ، امام ابو عبداللہ بن نعمان کی کتاب ’’مستطاب سفینۃ النجاء لاہل الالتجاء فی کرامات الشیخ ابی النجاء ‘‘سے ناقل:’’تحقق لذوی البصائر والاعتباران زیارۃ قبور الصالحین محبوبۃ لاجل التبرک مع الاعتبار فان برکۃ الصالحین جاریۃ بعد مماتھم کما کانت فی حیاتھم‘‘اہل بصیرت واعتبار کے نزدیک محقق ہوچکا ہے کہ قبور صالحین بغرض تحصیل برکت وعبرت محبوب ہے کہ ان کی برکتیں جیسے زندگی میں جاری تھیں بعدِ وصال بھی جاری ہیں۔

   جامع البرکات میں ارشاد فرمایا :’’اولیاء راکرامات وتصرفات دراکوان حاصل است وآن نیست مگر ا رواحِ ایشاں راچون ارواح باقی است بعد از ممات نیزیاشد‘‘اولیاء کو کائنات میں کرامات وتصرفات کی قوت حاصل ہے اور یہ قوت ان کی روحوں کو ہی ملتی ہے، توروحیں جب بعد وفات بھی باقی رہتی ہیں ،تو یہ قوت بھی باقی رہتی ہے۔

   کشف الغطاء میں ہے: ’’ارواح کمل کہ درحینِ حیات ایشاں بہ سبب قرب مکانت ومنزلت از رب العزت کرامات وتصرفات وامداد داشتند بعد از ممات چوں بہماں قرب باقیند نیز تصرفات دارند چنانچہ درحین تعلق بجسد داشتند یا بیشتر ازاں‘‘ کا ملین کی روحیں ان کی زندگی میں رب العزت سے قرب مرتبت کے باعث کرامات وتصرفات اور حاجتمندوں کی امداد فرمایا کرتی تھیں ، بعدِ وفات جب وہ ارواح شریفہ اسی قرب واعزاز کے ساتھ باقی ہیں، تو اب بھی ان کے تصرفات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے جسم سے دنیاوی تعلق کے تھے یا اس سے بھی زیادہ۔

   شرح مشکوٰۃ میں فرمایا:’’ یکے از مشائخ عظام  (عہ ۱)گفتہ است دیدم چہار کس را  از مشائخ تصرف می کنند درقبور خود مانند تصرفہائے شاں درحیات خود یا بیشتر شیخ معروف و عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہما و دوکس (عہ ۲)دیگر راز اولیاء شمُردہ ومقصود حصر نیست آنچہ خود دیدہ ویافتہ است ‘‘ایک عظیم بزرگ فرماتے ہیں :میں نے مشائخ میں سے چار حضرات کو دیکھا کہ اپنی قبروں میں رہ کر بھی ویسے ہی تصرف فرماتے ہیں جیسے حیات دنیا کے وقت فرماتے تھے یا اس سے بھی زیادہ (۱) شیخ معروف کرخی (۲) سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالٰی عنہما، اور دو اولیاء اور کو شمار کیا (شیخ عقیل منجبی بسہیاور شیخ حیاۃ ابن قیس حرانی رحمہما اللہ تعالٰی  )ان کا مقصد حصر نہیں، بلکہ خود جو دیکھا او رمشاہدہ فرمایا وہ بیان کیا۔

   اشعۃ میں فرمایا:’’سیدی احمد بن زروق کہ از عاظم فقہاء وعلماء ومشائخ دیار مغرب است گفت روزے شیخ ابوالعباس حضرم از من پرسید امدادِحی قوی ست یا امداد میّت قوی ست من گفتم قوی می گویند کہ امداد حی قوی تر است ومن می گویم کہ امداد میّت قوی تراست پس شیخ گفت نعم زیرا کہ وی دربساط است ودر حضرت اوست (قال) ونقل دریں معنی ازیں طائفہ بیشتر ازان ست کہ حصر و احصار کردہ شود یافتہ نمی شود درکتاب و سنت اقوالِ سلف صالح چیزے کہ منافی ومخالف ایں باشد و ردکندایں را الخ‘‘سیدی احمد بن زروق جودیارِ مغرب کے عظیم ترین فقہاء اور علماء ومشائخ سے ہیں، فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابوالعباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا زندہ کی امداد قوی ہے یاوفات یافتہ کی؟ میں نے کہا کچھ لوگ زندہ کی امداد زیادہ قوی بتاتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وفات یافتہ کی امداد زیادہ قوی ہے۔ اسی پر شیخ نے فرمایا: ہاں ! اس لیے کہ وہ حق کے دربار اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہے (فرمایا) اس مضمون کا کلام ان بزرگوں سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ حد وشمار سے باہر ہے اور کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقول میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو اس کے منافی ومخالف اور اسے رد کرنے والی ہو ۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ 767 ،774،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم