مجیب: ابو عبداللہ محمد
سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-1785
تاریخ اجراء: 14ذوالحجۃالحرام1444 ھ/3جولائی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
جب کوئی
شخص دعا میں ذات باری تعالیٰ
کی طرف متوجہ ہو تو کیا اس وقت" یا رسول اللہ انظر حالنا
"پڑھنا درست ہے ؟ میں بھی اس کا پڑھنا جائز سمجھتا ہوں لیکن
میرا مقصد یہ ہے کہ جب بندہ
ذات باری تعالیٰ کی طرف
متوجہ ہوکر دعا کررہا ہے تو عین اسی وقت یہ کلمات پڑھنا
اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کرنا درست ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی
ہاں! بلاشبہ ٹھیک اس حالت میں بھی جناب رسالت مآب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر کلمات مذکورہ پڑھنا
بالکل درست ہے ،بلکہ ٹھیک دعا کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا ایک صحابی
رضی اللہ تعالی عنہ کو
اپنی ذات کی طرف توجہ کا حکم فرمانا ثابت ہے ۔چنانچہ حضرت سَیِّدنا
عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
" ایک نابینا صحابی رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوکر عرض
کی:اللہ عزوجل سے دُعا کیجئے کہ مجھے
عافیت دے۔ ارشاد فرمایا: اگر تُو چاہے تو دُعا
کروں اور چاہے تو صبرکر اور یہ تیرے ليے بہتر ہے۔انہوں نے عرض
کی:آقا!دُعا فرمادیجئے۔انہیں حکم فرمایا: وضو کرو
اوراچھا وضو کرو اور دو رَکعت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:” اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ
نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا محمد اِنِّیْ قد
تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ
ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ
فَشَفِّعْہُ فِیَّ “یعنی ا ے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور وسیلہ تلاش کرتا ہوں اور تیری طرف مُتَوَجِّہ
ہوتا ہوں ،تیرے نبی محمد صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذَرِیعے سے جو نبیِّ رحمت
ہیں ۔یا رسولَ اللہ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذَرِیعے سے اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف اِس حاجت کے بارے میں
مُتَوَجِّہ ہوتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری
ہو۔الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اِن کی شفاعت میرے حق میں قبول
فرما۔“
حضرت سَیِّدُنا عثمان بن حُنیَف رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے،
باتیں ہی کر رہےتھےکہ وہ ہمارے پاس آئے،گویاکبھی
نابیناہی نہ تھے۔(سنن ابن
ماجہ،ج01،ص 441، حدیث نمبر1385، داراحیاء الکتب
العربیۃ)(المستدرک علی
الصحیحین،ج01،ص707،حدیث نمبر1930،بیروت)(وغیرہ)
نوٹ: اس
مسئلہ کی مکمل تفصیل سے آگاہی کیلئے فتاوی
رضویہ ج30 میں موجود رسالہ الامن و العلیٰ اور اسی طرح رسالہ برکات الامداد لاھل
الاستمداد کا مطالعہ فرمائیں ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟