ربیع الاول کی سجاوٹ اور فلاحی کاموں میں حصہ

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق:مفتی محمد ھاشم خان  عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میلاد شریف کے موقع پر جو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سجاوٹ وغیرہ کی جاتی ہے ، بعض لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے بجائے فلاحی کاموں مثلاً کسی حاجت مند کی حاجت پوری کرنے ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کرنے وغیرہ کاموں میں اتنی رقم لگادی جاتی۔ حالانکہ ان لوگوں کا اصل مقصود جائز سجاوٹ وغیرہ سے روکنا ہوتا ہے ، فلاحی کاموں میں رقم لگوانا مقصود نہیں ہوتا۔ اس طرح کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    میلاد شریف کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے سجاوٹ و چراغاں وغیرہ کرنا شرعاً جائز ہے اوراچھی نیت مثلاً اللہ تعالیٰ کی نعمت کا چرچا ، نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے اظہارِ محبت وغیرہ ہو تو باعثِ ثواب بھی ہے۔ اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ، جائز کاموں پر اپنا مال خرچ کرنا شرع میں ممنوع نہیں ہے۔ فلاحی کاموں کی وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں اس طرح کی پابندیاں ایسے لوگ نہیں لگاتے مثلاً ایسے لوگ یہ نہیں کہتے کہ : “ لوگ اینڈرائیڈ  موبائل کے بجائے سادہ معمولی قیمت والا موبائل لیں اور زائد رقم کو فلاحی کاموں پر خرچ کریں۔ گھروں میں ٹائلیں ، مہنگے فانوس ، قالین ، پردے ، صوفے ، پلنگ ، اے سی ، کولر وغیرہ استعمال نہ کئے جائیں ، کوٹھیوں اور بنگلوں وغیرہ بڑے گھروں میں کوئی نہ رہے بلکہ بقدرِ ضرورت رقم استعمال کرکے بقیہ رقم فلاحی کاموں میں لگائی جائے۔ اسی طرح عمدہ کپڑے کوئی نہ پہنے ، عمدہ کھانے کوئی نہ کھائے ، اچھے اسکولوں میں بچّوں کو کوئی نہ پڑھائے ، مہنگی گاڑیوں میں سفر کوئی نہ کرے ، مہنگی گاڑیاں کوئی نہ خریدے ، بقدرِ ضرورت یہ چیزیں لے کر بقیہ رقم فلاحی کاموں میں لگائی جائے ، شادی کے موقع پر مہنگے ہوٹلوں میں عمدہ کھانوں وغیرہ کا انتظام نہ کیا جائے ، جہیز کے نام پر کثیر رقم خرچ نہ کی جائے بلکہ جس طرح نبی کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے اپنی شہزادی سیّدہ فاطمہ  رضی اللہُ عنہا  کو سادہ جہیز دیا ، اسی طرح آج بھی سادہ جہیز دیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ “ بلکہ زندگی کے ان شعبہ جات میں خود یہ لوگ اپنے معاملے میں بھی اس اصول کو نہیں اپناتے ، خود اپنی ذات کے لئے ساری سہولیات اپناتے ہیں ، اس وقت غریبوں کی طرف بالکل دھیان نہیں جاتا ، نیز شادی ، جشنِ آزادی وغیرہ مواقع پر ہونے والی سجاوٹ و لائٹنگ پر بھی ان لوگوں کو غریبوں کا خیال نہیں آتا ، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف نبی کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی پیدائش مبارک کے موقع پر خوشی کرنے سے ، سجاوٹ وغیرہ کرنے سے لوگوں کو روکنا ہے۔ حالانکہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینت لوگوں کے لیے نکالی اسے کس نے حرام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کا چرچا کرنے کاحکم فرمایا ہے اورنبیِّ رحمت   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   یقیناً اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں اور اس عمل سے آپ  علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام  کا خوب چرچا ہوتا ہے۔ نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ہر پیر شریف کوروزہ رکھ کر اپنا میلاد شریف منایا ہے۔  صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  مسجد میں حلقہ لگائے اس نعمت عظمیٰ اور اس کے صدقے ملنے والی ہدایت پر اللہ  کا شکر ادا کررہے تھے ، جس  پر رب رحمٰن جلّ جلالہٗ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم