ماہِ رجب میں روزہ رکھنے کی ممانعت سے متعلق حدیث پاک کی شرح

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-3796

تاریخ اجراء:09رجب المرجب1434ھ20مئی2013ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا کہناہے کہ رجب کے مہینے میں روزے نہیں رکھنے چاہییں،اپنے اس قول پرمصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے :’’عن خرشۃبن الحر،قال:رایت عمریضرب اکف الناس فی رجب،حتی یضعوهافی الجفان،ویقول:کلوا،فانماهوشهرکان یعظمہ اهل الجاهلیۃ‘‘ ترجمہ:خرشہ بن حررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کولوگوں کوکھانے سے ہاتھ روکنے پرمارتے ہوئے دیکھا،یہاں تک کہ اُن کے لیے کھانا رکھ دیا جاتا ( اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) فرماتے :’’ کھاؤ ‘‘ کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس کی زمانہ جاہلیت میں تعظیم کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،حدیث نمبر 9758)مزید یہ کہتاہے کہ جن روایات میں رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کے فضائل کاذکر ہے ، وہ روایات ضعیف ہیں، لہٰذاان پر عمل نہیں کرناچاہئے ۔ اس تناظر میں چند سوالا ت کے جوابات مطلوب ہیں:

     (1)رجب کے روزوں کاکیاحکم ہے ؟

     (2) کیارجب کے روزوں کے فضائل سے متعلق ساری روایات ضعیف ہیں؟

     (3)جوضعیف ہیں وہ تعددطرق سے حسن ہوتی ہیں یانہیں ؟اگرنہیں ہوتیں ، توان پرعمل کرناکیساہے؟

     (4)زید نے  جو روایت بیان کی ہے ، اس کاکیاجواب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)رجب کے مہینے میں روزےرکھنامستحب ہے۔چنانچہ فتاوی ہندیہ،جلد1،صفحہ202اورفتاوی تاتارخانیہ میں ہے:’’ المرغوبات من الصيام أنواع أولها صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان‘‘ ترجمہ:مستحب روزوں کی چند قسمیں ہیں،جن میں سے پہلے محرم کے روزے اوردوسرے رجب کے روزےاورتیسرے شعبان کے روزے ہیں ۔

(فتاوی تاتارخانیہ،جلد2،صفحہ118،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:’’یندب صوم شهررجب وشعبان‘‘ ترجمہ:ماہ رجب اورشعبان کے روزے رکھنامستحب ہے ۔

(الفقہ علی المذاهب الا ربعہ،جلد1،صفحہ507،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    بلکہ اس مہینے میں روزے رکھنا تو خود حضور نبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔صحیح مسلم شریف ،مصنف ابن ابی شیبہ، جلد2، صفحہ344،حدیث نمبر9748،امالی ابن بشران،جلد1،صفحہ253،میں شرط مسلم پرسندصحیح کے ساتھ حدیث پاک مروی ہے، واللفظ للاول:’’عثمان بن حکیم الانصاری،قال:سالت سعیدبن جبیرعن صوم رجب ونحن یومئذ فی رجب فقال: سمعت ابن عباس رضی اللہ عنھما،یقول:’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول:لا یفطر،ویفطرحتی نقول: ’’ لا یصوم‘‘ترجمہ:عثمان بن حکیم الانصاری فرماتے ہیں، میں نے سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے رجب کے روزے کے بارے میں سوال کیا اور اس وقت رجب کا مہینا تھا ،تو انہوں نے فرمایا:میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہماکوفرماتے سنا:فرمارہے تھے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے رکھتے،یہاں تک کہ ہم کہتے کہ افطارنہیں کریں گے اورافطار کرتے ، یہاں تک کہ ہم  کہتے :روزہ نہیں رکھیں گے ۔

(صحیح مسلم ،کتاب الصیام،جلد2،صفحہ811،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

     (3،2) رجب کے رزوں کے متعلق ساری روایات ضعیف نہیں ہیں، بلکہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں، جیسا کہ  جواب نمبر ایک میں ہم نے صحیح مسلم کی صحیح روایت نقل کی ہےاور جو ضعیف ہیں، وہ بھی تعددِ طرق و شواہد و توابع کی وجہ سے حسن کے درجے میں چلی  جاتی  ہیں اور بالفرض اس پر صرف ضعیف روایات ہی ہوتیں ،تو بھی روزے رکھنے کی ممانعت کا قول کرنا درست نہیں کہ  تمام ائمہ حدیث کا اجماع ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث بھی معتبر ہوتی ہیں۔

اصولِ حدیث کا یہ اصول ہے کہ اگر ضعیف حدیث متعدد طرق سے مروی ہو،تو وہ قوی ہوکر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ’’التیسیر بشرح الجامع الصغیر‘‘ میں ایک ضعیف حدیث کے بارے میں ہے :’’وھوضعیف کماقال المنذری وغیرہ لکنہ یقویہ مابعدہ فھوحسن لغیرہ‘‘ ترجمہ:اوروہ ضعیف ہے،جیساکہ منذری اوران کے علاوہ نے کہا،لیکن اس کے بعدوالی نے اُس کوقوی کردیا،تو  وہ حسن لغیرہ ہے ۔

        (التیسیر بشرح الجامع الصغیر،جلد1،صفحہ167،مکتبۃ الامام الشافعی ،الریاض)

    الادب فی رجب میں ہے:’’وقدجاء فی فضائل صومہ احادیث ضعیفۃتصیربکثرۃ طرقھاقویۃ مع ان الاحادیث الضعیفۃ الاحوال معتبرۃ فی فضائل الاعمال یعنی تفید‘‘ ترجمہ:اورتحقیق رجب کے فضائل کے بارے میں احادیث ضعیفہ واردہیں ،کثرت طرق کی وجہ سے وہ قوی ہوگئی ہیں باوجودیکہ وہ احادیث ضعیفہ ہیں ،فضائل اعمال میں معتبر ہیں ،یعنی عمل کافائدہ دیتی ہیں ۔

(الادب فی رجب ،صفحہ39،المکتب الاسلامی ،دارعمار،بیروت)

    فضائل  میں ضعیف حدیث معتبر ہونے کے حوالے سےمرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،جلد2،صفحہ 806 پر ہے:’’وهویعمل بہ فی فضائل الاعمال اتفاقا‘‘ ترجمہ:اور بالاتفاق ضعیف حدیث پر فضائل اعمال میں عمل کیاجائے گا۔

اسی کتاب کےایک دوسرے مقام پر ہے:’’اجمعواعلی جوازالعمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال‘‘ ترجمہ: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جوازپر علمائےکرام کااجماع ہے ۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،جلد3،صفحہ 895،دار الفکر، بیروت)

    ایک اورمقام پریوں ہے:’’ومعتبر فی فضائل الاعمال عندالکل‘‘ ترجمہ:اورفضائل اعمال میں تمام کے نزدیک معتبر ہے ۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،جلد7،صفحہ 2754،دار الفکر، بیروت)

    شرح مسندابی حنیفہ میں ملاعلی قاری علیہرحمۃ اللہ الباری ضعیف حدیث پرعمل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:’’باسنادضعیف لکنہ قوی حیث یعمل بہ فی فضائل الاعمال واللہ اعلم بالاحوال‘‘ترجمہ:اسنادضعیفہ کے ساتھ  مروی ہیں ،لیکن فضائل اعمال میں عمل کے اعتبار سے قوی ہیں اوراللہ عزوجل احوال کوبہتر جانتاہے ۔

(شرح مسندابی حنیفہ ،جلد1،صفحہ26،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :’’اور فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف باجماعِ ائمہ مقبول ہے ،واﷲتعالیٰ اعلم۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد10،صفحہ 649،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     (4)زید نے جو روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ذکر کی ہے، اس کا مطلب شارحین حدیث نے یہ بیان کیاہے کہ اگر کوئی شخص زمانہ جاہلیت کی طرح اس مہینے میں روزہ کوواجب جانتے ہوئے رکھے، تو ممنوع ہے، ورنہ منع نہیں کہ یہ نفلی روزہ ہے اور اس سے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔ العلامۃ الشیخ علی بن سلطان محمدالقاری فرماتے ہیں:’’فمحمول علی اعتقادوجوبہ،کمافی الجاھلیۃ ‘‘ ترجمہ: تو ممانعت کواس کے واجب ہونے کے اعتقادپرمحمول کیاجائے گا،جیساکہ زمانہ جاہلیت میں تھا۔ 

(الادب فی رجب ،صفحہ39،المکتب الاسلامی ،دارعمار،بیروت)

    لہٰذا مسلمانوں کو چاہيے کہ کسی کے وسوسہ کی وجہ سے اپنی عبادات میں سستی نہ کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کثیر کی امید پر رجب کے مہینے میں خوب خوب عبادات کریں ۔

    اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے العلامۃ الشیخ علی بن سلطان محمد،ابو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری علیہرحمۃ اللہ الباری کی تصنیف لطیف’’الادب فی رجب‘‘ کا مطالعہ بہترین ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم