جلوسِ میلاد اور ڈھول باجے ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6303-b

تاریخ اجراء:28 ذوالحجۃ الحرام1439ھ/09ستمبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جلوس میلاد ،محفل پاک یا کسی اسلامی تقریب کے موقع پر ڈھول بجانا،آتش بازی کرنا ،تالیاں بجانا،بینڈ باجے کا اہتمام کرنا اور خواتین کا بے پردہ ہو کرجلوس اور ایسی تقریبات میں شرکت کرنا کیساہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جلوس میلاد اور دینی محافل کا انعقاد کرنا بہت اچھا کام ہے ، لیکن اس میں ڈھول ،بینڈ باجے ،آتش بازی اور بے پردگی کرنا ، ناجائز و گناہ ہے،جس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ان تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ، انہوں نے ہی ایسے بے ہودہ کاموں سے منع فرمایا ہے،لہٰذا ایسی خرافات سے دور رہتے ہوئے ہی ایسے نیک کاموں کا انعقاد کیا جائے۔

    گانے بجانے کے آلات کے بارے میں بخاری شریف میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرما یا :”لیکو نن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروا لمعازف “ترجمہ:ضرور میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو عورتوں کی شرمگا ہ (یعنی زنا)اور ریشمی کپڑوں اور شرا ب اور گانے بجانے کے آلات کو حلا ل ٹھہرائیں گے۔

                                        (بخاری شریف،کتاب الاشربۃ ، ج 2 ، ص837 ، مطبوعہ کراچی)

    آلات موسیقی کے بارے میں مسند امام احمد بن حنبل میں ہے : ” عن ابي امامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين، وامرني ربي بمحق المعازف والمزامير والاوثان والصلب“ترجمہ:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بے شک میرے رب نے مجھے دو نوں جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور میرے رب نے  مجھے بانسری اور گانے باجے کے آلات ،بت اور صلیب توڑنے کا حکم دیا ہے ۔

(مسند امام احمد بن حنبل ،حدیث ابو امامہ باھلی،ج36،ص640،مؤسسۃ الرسالہ )

    گانے باجے اور آتش بازی کے متعلق اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:”آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہے ، بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییع مال ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا۔ قال اللہ تعالی(اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : )﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور فضول نہ اڑا ۔ بیشک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

    رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:” ان اللہ تعالی کرہ لکم ثلثا قیل و قال و اضاعۃ المال و کثرۃ السوال رواہ البخاری عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ تعالی عنہ“ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمھارے لئے تین کاموں کو ناپسند فرمایا :(1) فضول باتیں کرنا(2) مال کو ضائع کرنا (3) بہت زیادہ سوال کرنااور مانگنا۔ امام بخاری نے اس کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

    شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی” ماثبت بالسنۃ “میں فرماتے ہیں:” من البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلاد الھند من اجتماعھم للھو و اللعب بالنار، و احراق الکبریت،مختصرا“ترجمہ: بری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشہ کرنے کے لئے جمع ہونا ، گندھک جلانا وغیرہ ۔اسی طرح یہ گانے بجانے کہ ان بلاد میں معمول و رائج ہیں ، بلا شبہ ممنوع و نا جائز ہیں۔“

(فتاوی رضویہ ، ج 23 ، ص 279 تا 280  ، رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

    ایک اور مقام پر بے پردگی کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ، ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز ،تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے۔“

(فتاوی رضویہ،ج22،ص239تا240،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم