Flats Ki Booking Par Pesh Ane Wale Jadeed Masail

فلیٹوں کی بکنگ پرپیش آنے والے جدید مسائل

 

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

 

مرتب: مفتی علی اصغر عطاری مدنی

مجلس تحقیقاتِ شرعیہ(مجلسِ افتاء)

   مجلس تحقیقات شرعیہ(دعوت اسلامی) نے متعدد اجلاسوں میں محققین کے مقالہ جات اور ان پر قائم ہونے والے تنقیحی  سوالات کے تفصیلی جوابات اور بحث و تمحیص  کے بعد جو رائے قائم کی اس پر مشتمل تفصیلی فیصلہ

   فلیٹوں کی بکنگ پرپیش آنے والے جدید مسائل اور سلسلہ وار بیع کی شرعی حیثیت اور بکنگ والے تجارتی فلیٹوں کی زکوۃ ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عقد استصناع اور ایک   ماہ کی مدت:

     فلیٹوں کاوجود معدوم ہونے کے باوجود اولاً بلڈر سے فلیٹوں کی بکنگ یا خرید و فروخت کرنا،جائز ہے، اس لیے  کہ اگرچہ یہ معدوم کی بیع ہے،لیکن یہ بیع استصناع ہے اور بیع استصناع خلاف قیاس استحساناً تعامل اور حاجت ناس کے سبب جائز ہے،فی زمانہ عموما فلیٹوں کی یہ بیع ایک ماہ سے زائد عرصہ پر محیط ہوتی ہے ،حالانکہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق اگر بیع استصناع میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت مذکور ہو،تو وہ بیع استصناع کے بجائے بیع سلم ہوجاتی ہے اور پھر اس میں تمام شرائطِ سلم کاپایا جانا ضروری ہے،جبکہ اس کے برعکس صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بیع استصناع کی وہ صورتیں جن میں تعامل پایا جاتا ہے ،ان میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا ذکر کرنے پربھی یہ عقد استصناع ہی ہوگا  اور یہ ذکرِمدت،تعجیل پر محمول ہوگا۔فی زمانہ فلیٹوں کی ایک ماہ یااس سےزائدمدت پر خرید وفروخت میں بہت سے شہروں میں عوام وخواص سب ہی مبتلا ہیں اور مکان جو انسانی زندگی کے لیے حاجت اصلیہ میں شمار ہوتا ہے، اس کاحصول بھی فی زمانہ یکمشت ادائیگی کے ذریعہ ممکن نہ رہا ،اسی لیے لوگ قسطوں پر فلیٹوں کی بکنگ کرواکر اس خریدو فروخت کے لیے مجبور ہوتے ہیں،یوں حاجت شرعیہ بھی متحقق ہے جس کی بِنا پر امام اعظم علیہ الرحمۃ کے مفتیٰ بہ قول سے صاحبین علیہما الرحمۃ کے قول باقوت کی طرف عدول کرتے ہوئے عوام وخواص میں رائج اس خرید وفروخت کے جواز کا حکم ہے۔

     فلیٹوں کے وجود سے پہلے ان کی پہلی خرید وفروخت تو بیع استصناع کے تحت جائز ہے، لیکن دوسری مرتبہ یا اس کےبعدفلیٹ کاوجود ہونے سے پہلے تک اس کی مزید سلسلہ وار خرید وفروخت بھی جائز ہے، اگرچہ بعد والی سلسلہ وار بیع حقیقتاً بیع نہیں، بلکہ نزول عن الحق بالعوض ہے یعنی خریدار کو جو بیع استصناع کی وجہ سے حق حاصل ہوا تھا ، وہ اپنے اس حق سے دوسرے نئے خریدار کےلیے پیسوں کے عوض دستبردار ہوجاتاہے،اسی کا نام فقہی اصطلاح میں نزول عن الحق بالعوض ہے۔

عقد استصناع کا لزوم:

     بیع استصناع کے تعلق سے کتب میں دو طرح کے اقوال درج تھے کہ ابتداءً بیع ہے یا اجارہ۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کے اراکین نے بحث وتمحیص کے بعد اس بات پر اتفاق کیا کہ فلیٹوں کے معاملہ میں ابتداءً بیع واقع ہوتی ہے ۔جیسا کہ امام اہل سنت رضی اللہ عنہ کی ایک عبارت سے بھی یہ مترشح ہے،آپ فرماتے ہیں:’’ عندالتحقیق استصناع ہر حال میں بیع ہی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد17،صفحہ599،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

     کتب فقہ میں  عقد استصناع کے تحت اس بات کو بیان کیا ہے کہ یہ عقد لازم نہیں ہوتا، بلکہ مستصنع کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ تیار شدہ چیز دیکھے تو منع کر سکتا ہے ۔دیکھیے۔(بہارشریعت،جلد2،صفحہ808،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     بعض فقہاء مثل صاحبِ درر (ج2،ص198)درمختار(ج7،ص502)مختصر الوقایۃ (ج2، ص384) وغیرہ نے صانع پر جبر کا قول کیا ہے، لیکن علامہ شامی نے متعدد کتب ،خاص طور پر بدائع الصنائع وبحر الرائق کی عبارات وتحقیقات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ظاہر الروایہ وصحیح قول یہی ہے کہ صانع پر جبر نہیں ہے، بلکہ صانع ومستصنع میں سے ہر ایک کو اختیار ہے اور صاحب ہدایہ نے جو مبسوط کے حوالہ سے صانع پر جبر کا قول فرمایا ہے(جلد6،صفحہ243-244) اسے فتح القدیر میں اس قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے کہ یہ جبر اس وقت ہے ،جبکہ صانع نے چیز بناکر مستصنع کے سامنے پیش کردی ہو، تو اب صانع پر جبر ہے، کیونکہ اس کااختیارساقط ہوگیا ،مستصنع کے سامنے پیش کرنے سے پہلے صانع پر جبر نہیں ہے ۔البتہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ سے ایک روایت یہ ہے کہ بیع استصناع میں جانبین میں عقد لازم ہے، صانع ومستصنع میں سے کسی ایک کو بھی حق فسخ حاصل نہیں ۔(ہدایہ ،جلد6، صفحہ244)

     مجلس تحقیقات شرعیہ کے اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس وقت جو عرف اور عادات ناس جاری ہے، اس کے تحت  امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر عمل کرتے ہوئے عقدِ استصناع ابتداءً ہی ایک عقد ِلازم ہوگا، اگر یہ بات نہ مانی جائے ،تو شدید ضرر کا پایا جانا متحقق ہے۔ بڑی بڑی  کمپنیاں عقدِ استصناع کے طور پر  ایکسپورٹ آرڈر کے لیے مال تیار کرتی ہیں،اگر خریدار مال تیار ہونے پر منع کر دے،تو یہ کمپنیاں اسی وقت دیوالیہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ آرڈر پر جس کے لیے مال بنایا جاتا ہے،وہ اس کی ترجیحات کے تحت بنایا جاتا ہے اور بہت بڑا سرمایہ اس میں لگایا جاتا ہے ، خریدار کے منع کرنے پر یا تو یہ مال کہیں اور نہیں بِکے گا یا پھر دیر سے بِکے گا۔یوں ہی آرڈر لینے والا بھی معاہد ہ کرنے کے بعد منع کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔

     فلیٹس میں  بھی یہ ضرر دو طرفہ ہے کہ بکنگ کے وقت عام طور پرریٹ کم ہوتے ہیں،فلیٹ تیار ہونے پر ریٹ بعض اوقات دُگنے یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور بلڈر اگر منع کر دے کہ  عقد لازم تو ہے نہیں، لہذا میں نہیں دے رہا ،تو اس پوری پریکٹس سے فساد لازم آئے گا، لہذا جاری عُرف کے مطابق عقد استصناع ابتداءً ہی لازم ہو جاتا ہے اور فریقین میں سے کوئی بھی صرف اس وجہ سے منع نہیں کر سکتا کہ عقد تو لازم ہی نہیں ہوا تھا ۔

فلیٹوں کے عقد استصناع کے لیے بلڈر کے پاس زمین کا ہونا:

     عقد استصناع میں عمومی طور پر تو صانع کے پاس پہلے سے مال موجود ہونے یا خام مال موجود ہونے کی شرط نہیں ہے ،بلکہ اصل میں تو  عقد سلم اور عقد استصناع، معدوم کی بیع سے مستثنیٰ عقد ہیں، جن میں مال کا  وقت ِعقد پایا جانا ضروری نہیں ہے ، لہٰذا بلڈر کے پاس پلاٹ تک نہ ہو، جب بھی عقد استصناع ہو جانا چاہیے تھا،لیکن لوگوں کو  دھوکا دہی  سے بچانے کے لیے پاکستانی قانون میں اس بات کی اجازت نہیں  کہ کسی کے پاس پلاٹ نہ   ہو اور وہ پروجیکٹ لاؤنچ کرے،بلکہ پلاٹ خریدنے کے بعد متعلقہ محکموں سے نقشہ پاس کروانے کے بعد ہی بلڈر کو قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ پروجیکٹ لاؤنچ کر کے بکنگ شروع کرے ۔لہذا  بلڈر پر لازم ہے کہ وہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی پروجیکٹ لاؤنچ کرے ۔

     ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بعض بلڈر یہ کرتے ہیں کہ جتنے فلیٹ بنانے ہیں مثلاً 40 بنانے ہیں، لیکن وہ 50 فلیٹ بُک کرتے ہیں تا کہ درمیان سال اگر کچھ لوگ رقم دینے سے عاجز آجائیں، تو بلڈر کا نقصان نہ ہو ۔یہ اووَر بکنگ (Overbooking)کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں کہ عقد استصناع  کی بنیاد ایک حقیقی ورکنگ کام پر معاہدہ ہے جن افراد کو بلڈر نے وہ فلیٹ دینے کا معاہدہ کیا جن کا وجود کبھی ہونا ہی نہیں ہے، یہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔

کیا فلیٹ وغیرہ بُک  کروانے والے زمین کے بھی مالک ہوں گے یا نہیں ؟

     مجلس تحقیقات شرعیہ کو اس  موقع پر مختلف افراد کی طر ف سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق  بہت سارے بلڈر لیز کرتے وقت زمین کو بھی خریدار کے حصے کے مطابق شامل کرتے ہیں، لہذا ایسی صورت میں  کل کو اگر فلیٹ گر جاتا ہے،تو  فلیٹ والا زمین کی ملکیت میں اپنے حصے کے مطابق شریک ہوگا ۔جبکہ بعض بلڈر لیز کے وقت زمین کو شامل نہیں کرتے، بلکہ زمین بلڈر ہی کی ملکیت پر رہتی ہے ۔ایسی صورت میں فلیٹ وغیرہ بک کروانے والا زمین کا مالک نہیں ہوگا،بلکہ اپنے فلیٹ دکان وغیرہ کے ڈھانچے کا مالک ہوگا فقط۔البتہ بلڈر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سودا کرتے وقت معاہدے کی تفصیلات گاہک کو واضح الفاظ میں بیان کر دے، کیوں کہ لیز عام طور پر فلیٹ مکمل ہونے اور قبضہ کے وقت یا اس کے بعدکی  جاتی ہے، بہت سارے لوگوں کی تو اس طرف توجہ ہی نہیں جاتی اور اگر لیز کے وقت یہ بات کی جائے گی، تو یہ معاملہ تنازع کی طرف  جائے گااور جس بات سے عقد میں تنازع ہو اس سے بچنا اورسودے کو  فاسد ہونے سے بچانا واجب ہے ۔ لہذا فلیٹوں کی بکنگ کرتے وقت فریقین پر لازم ہوگا کہ اس تعلق سے واضح مؤقف پر اتفاق کریں ۔

متعین فلیٹ ہی دینے کا لزوم:

     استصناع میں متعین چیز دینا ہی ضروری ہے یا نہیں یہ ایک تنقیح طلب مسئلہ ہے ۔ عام استصناع میں تو کئی اعتبار سے احکام مختلف ہوتے ہیں،جیسے  کسی نےگارمنٹس بنانے کا آرڈر لیا ہے، مثلا: ٹی شرٹ بنا کر دینی ہے، تو جب تک مستصنع کے حوالے نہیں کر دیتا ، ٹی شرٹ میں کسی بھی قسم کا تصرف کر سکتا ہے ،بعض اوقات کئی آرڈر ایک ساتھ آرہے ہوتے ہیں، تو بندہ اپنے حساب سے مختلف لوگوں کو مال کی ادائیگی کر رہا ہوتا ہے ، عقد استصناع میں یہ لازم نہیں کہ مال بنتے ہی آرڈر دینے والے کی  مِلک ہو جائے، یوں ہی یہ بھی لازم نہیں کہ صانع  اس میں مالکانہ تصرف نہیں کر سکتا ، عقد استصناع میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔بلکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ مال بن رہا ہوتا ہے اور مکس ہو کر مختلف لوگوں کے آرڈر پورے ہو رہے ہوتے ہیں اورحوالگی سے قبل مستصنع کے حق میں کسی مال کا تعین نہیں کیا جاتا۔

     فلیٹس کا معاملہ مختلف ہے، یہاں بلڈر کو یہ حق نہیں  کہ جو فلیٹ بُک کیا ہے، وہ کسی اور کو دے ،بلکہ  اس مسئلہ پر عرف یہ ہے کہ فلیٹ، نمبر اور لوکیشن کے تعین سے بُک ہوتے ہیں، بلڈر ان میں تبدیلی کا حق نہیں رکھتا۔

بُک کردہ فلیٹ پر قبضہ سے پہلے  زکوۃ کس پرہے ؟

جو پروجیکٹ بلڈر بنارہا ہے قبضہ دینے سے قبل  بلڈر کی اس چیز پر اس انداز کی ملکیت ثابت ہوگی جس انداز کی ملکیت مقروض کو قرض کی رقم پر ہوتی ہے  کہ بلڈنگ گِر جائے تو نقصان بلڈر کا کہلائے گا ، یوں ہی  قبضہ دینے سے قبل  ہر قسم کے تصرف  وضمان کا ذمہ بلڈر پر ہی ہے ۔البتہ حکمی طور پر   زیر تکمیل فلیٹ، بُک کروانے والوں کی ملکیت ہے اور بلڈر کے ذمہ تیار کر کے حوالے کرنا  لازم ہے ۔بُک کروانے والوں نے اگر مال تجارت کے طور پر لیا ہے، تو شرائط پائے جانے پر اس کی زکوۃ کے وہ خود ذمہ دار ہیں ۔اور مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی زکوۃ ادا کریں گے۔

     بدائع الصنائع میں ہے:”وأما حكم الاستصناع فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن “ترجمہ: بیع استصناع کا حکم یہ ہے کہ مستصنع (چیز بنوانے والے) کی ملکیت اس عین میں ثابت ہوجاتی ہے، جو (صانع کے ) ذمہ ہے۔اور صانع (چیز بنانے والے) کی ملکیت  ثمن  میں ثابت  ہو جاتی ہے۔(بدائع الصنائع،جلد5،صفحہ3،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

پروجیکٹ کے وجود میں آنے کے بعد بکنگ نہ ہونے والے حصے کی زکوۃ کا حکم:

     بلڈر کے پروجیکٹ میں ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ کچھ فلیٹ بُک ہوئے ہوں اور کچھ اس کی ملک پر باقی ہوں،لہذا جو فلیٹ اسے بیچنے ہیں اور ابھی بُک نہیں ہوئے  اور وجود میں بھی آچکے ہیں، تو ان میں مکمل طور پر بلڈر ہی کی ملکیت پائی جا رہی ہے اور ان میں جو بھی حصہ بیچنے کے لیے ہو زکوٰۃ کے نصاب کے دن کرنٹ ویلیو کے حساب سے  اس کی زکوٰۃ بلڈر پر لازم ہوگی۔

بلڈر کو ادا کردہ اور بقایا اقساط پر زکوۃ:

     جو اقساط ثمن کے طور پر بلڈر نے وصول کر لی ہیں، تو اگرشرائط کے پائے جانے پر نصاب کے دن وہ موجود ہوں ،تو اس  کی زکوۃ بلڈر پر ہوگی   یا وہ رقم جو ابھی وصول کرنی ہے،اس پر بھی بلڈر کو دَین  کے وصول ہونے کی تفصیل کے مطابق زکوۃ دینی ہوگی ،جبکہ ادائیگی زکوۃ کی شرائط پائی جاتی ہوں۔

     خریدار یا بکنگ کروانے والا جو قسطیں بلڈر کو ادا کر دے گا، وہ اس کی ملکیت سے نکل جائیں گی ۔نیز جو اقساط فلیٹ بک کرنے والے کسٹمر نے مستقبل میں جمع کروانی ہیں، وہ بطور قرضہ منہا (Minus)کرے گا ۔

کسٹمر زیا فلیٹ بک کروانے والا زکوۃ کا حساب یوں لگائے گا:

     صورت مسئلہ :مثلا کسی نے تجارت کی نیت سے ایک کروڑ روپے کافلیٹ بُک کروایا  اور 5 شعبان کو  اس   کے نصاب کاسال پورا ہوتا ہے اور 5 شعبان تک وہ 20 لاکھ کی ادئیگی بلڈر کو کر چکا ہے ۔جو 20 لاکھ روپے یہ خریدار بلڈر کو دے چکا وہ اس کی ملکیت سے نکل گئے ۔بُک کیے گئے فلیٹ کی مالیت اگر زکوۃ فرض ہونے کے دن بھی ایک کروڑ ہے یا زیادہ  یا کم الغرض جتنی بھی ہے،اس کا حساب لگائے  اور 80 لاکھ روپے منہا (Minus)کر دےکیوں کہ وہ تو اس کے ذمہ قرضہ ہے ،جو بلڈر کو دینا ہے۔ مثلا :5 شعبان کے دن فلیٹ کی قیمت  ایک کروڑ دس لاکھ ہو چکی تھی ،اس میں سے 80 لاکھ روپے اس کے ذمہ پر واجب الادا ہونے کی وجہ سے منہا(Minus) ہو گئے  ، باقی جو 30 لاکھ کا فیگر (Figure)بچا، اس مالیت کے اعتبار سے یہ زکوۃ ادا کرے گا۔

جو رقم بلڈر کو قسطوں کی صورت میں کئی سالوں میں  ملنی ہے، اس کی زکوۃ کا حکم:

     بلڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ بکنگ کروانے والوں کی طرف سے وصول ہونے والے پیسوں میں سے جتنے پیسے لاگت میں خرچ ہونے ہیں، وہ منہا کرے گا،باقی رقم پر زکوۃ دینا ہوگی۔لاگت نکال کر جو بچتا ہو، اس پر فوری اور جو ابھی ملنا ہے، اس پر دَین قوی کی تفصیل کے مطابق  زکوۃ کی ادائیگی ہوگی۔

     مثلا: بلڈر کے پاس  قرض اور حاجت اصلیہ سے زائد  فلیٹ والے پروجیکٹ کے علاوہ قابل زکوۃ اثاثہ ایک ارب  50 کروڑ کا ہے اور جس پروجیکٹ کی بکنگ اس نے لی ہے،وہ اس نے 50 کروڑ کا  مکمل بیچ دیا ہے اوراس کی لاگت 40 کروڑ ہے اور کوئی پارٹنر اس پروجیکٹ میں شامل   نہیں ہے، تو تنہا یہ خود مالک ہے۔لہٰذا یہ بلڈر اپنے  قابل زکوۃ اموال سے 40 کروڑ روپے منہا کرے گا،جو کہ اس پروجیکٹ پر لاگت کے ہیں،البتہ ایک ارب 60 کروڑ پر جو زکوٰۃ بن رہی ہے،اس میں 10 کروڑ وہ بھی شامل ہیں، جو یہ فلیٹ کی بکنگ پر یا اقساط کی صورت میں وصول کر چکا ہےاور تاحال اس کے پاس موجود ہیں لیکن  اس کے علاوہ بالفرض40 کروڑ وہ ہیں جو اس طور پر بلڈر کی ملکیت میں ہیں کہ بک کردہ فلیٹس کی مد میں لوگوں سے مستقبل میں اقساط کی صورت میں موصول ہونے ہیں ۔

     لہٰذا شرائط پائے جانے پر  ایک ارب 20کروڑ پر  نصاب کا سال پورا ہونے پرفوری زکوٰۃ ادا کرے گا۔باقی جو 40 کروڑ ہیں، ان پر بھی ہر سال کی  واجب الوصول رقم (Receivable Amount) پر شرائط پائے جانے پر زکوٰۃ ہے لیکن دَین قوی کی تفصیل کے مطابق یہاں ادائیگی  میں تاخیر کی جا سکتی ہے ۔بہتر یہ ہے کہ یہ بلڈر ایک ارب 20 کروڑ اور 40 کروڑ کو الگ الگ کرنے کی بجائے سال پورا ہونے پر ایک ارب 60  کروڑ کی ہی زکوٰۃ فوری نکال دے۔

     واضح رہےکہ جیسے جیسے بلڈر پروجیکٹ کھڑا کرتاجائے گا ،لاگت کی مالیت میں بھی کمی ہوتی رہے گی، لہٰذا ایسی صورت میں ہر سال زکوۃ نکالتے وقت لاگت کا فیگر (Figure)ایک ہی نہیں رہے گا، اس کا خیال رکھا جائے۔

واجب الوصول رقم (Receivable Amount) پر ادائیگی زکوۃ میں تاخیر کی کیا تفصیل ہے؟

     فقہی احکام کے اعتبار سے واجب  الوصول رقم  یا اموال(Receivable Amount) تین طرح کے ہوتے ہیں: دَین قوی ،دَین متوسط اور دَین ضعیف۔ بلڈر کو جو رقم فلیٹ بک کرنے والوں سے وصول کرنی ہے، یہ چونکہ دَین قوی ہوتی ہے اور عام طورپرتجارتی مال کے بدلے جو قرضے ہوتے ہیں،اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا دَین قوی پر زکوۃ کی تفصیل ملاحظہ ہو۔

     دَین قوی پر زکوۃ کا خلاصہ یہ ہے کہ زکوۃ تو اس رقم پر ہوگی، لیکن ادائیگی میں تاخیر کی تھوڑی سی گنجائش موجود ہے کہ جب تک نصاب کا پانچواں حصہ موصول نہیں ہو جاتا ،سال پورا ہونے کے باوجود ادائیگی میں مزیدتاخیر کر سکتا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ سال پورا ہونے پر زکوۃ نکالتا رہے ۔

     نصاب کے پانچویں حصے کی تفصیل یہ ہے کہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے اور اس کا پانچواں حصہ ساڑھے دس تولہ چاندی بنتا ہے،کیش میں چاندی ہی کے نصاب کا اعتبار ہے۔ لہذا نصاب کا سال پورا ہونے کے بعد (Receivable Amount) پر زکوۃ تو فرض ہوگی ،لیکن ادائیگی میں اس وقت تک تاخیر کر سکتا ہے، جب تک ساڑھے دس تولہ چاندی کی مقداررقم اس میں سے موصول نہیں ہو جاتی۔ ایسی صورت میں جتنی رقم موصول ہوئی اس پر فوری زکوۃ نکالے گا بقایا  کی ادائیگی پر مزید تاخیر کرنا گناہ نہیں ہوگا،لیکن بقایا پوری پر سال بہ سال زکوۃ نکالنے میں ہی آسانی ہے۔

     عوامی اشکال:بلڈر کو جو رقم اگلے پانچ سالوں میں قسطوں میں ملنی ہے،اس مال کو اپنے مال میں شمار کرکے ہر سال زکوۃ ادا کرتا رہے،تو آخر میں اس کا نفع  بہت ہی کم رہ جاتا ہے؟

     جواب:نفع کی کیلکولیشن کرتے وقت ہی  اس طرح کیلکولیشن  کی جائے کہ زکوۃ کی ادائیگی کو  بھی شمارکرے تاکہ اس تناسب سے نفع زیادہ رکھیں ورنہ یہ اعتراض تو زیورات کی زکوۃ یا غیر تجارتی پیسوں پر بھی لازم آئے گا کہ ان سے نفع نہیں ہورہا ،مگر ان کی زکوۃ لازم ہورہی ہے۔

زیر تعمیر بُک کردہ فلیٹ، دُکان کومکمل ہونے سے قبل آگے بیچنے کی تکییف فقہی اور متعلقہ مسائل:

     عقد استصناع کے ضوابط اور زکوۃ کے پس منظر میں کچھ نئے  زاویےتھےجن  پر فقہائے عصر نے یا تو بحث نہیں کی ہے یا پھر ان مقامات پر تشنگی باقی ہے، اس تناظر میں ما قبل کی گفتگو سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ  کئی نئے زاویوں  پر مجلس تحقیقات شرعیہ نے تفصیلی دلائل اور بحث و تمحیص کے بعد ایک واضح مؤقف اپنایاہے اور درج ذیل اہم پیچیدہ فقہی مسائل پر  دلائل کے ساتھ ایک واضح فقہی مؤقف اختیار کیا۔

1.    بیع استصناع کا لازم ہونا ۔

2.    بلڈر کا پلاٹ کے  مالک بننے سےپہلے عقدِاستصناع  کرنے پر قانونی ممانعت۔

3.    بلڈر کا اووَربکنگ (Overbooking)لینا۔

4.    ابتداءً ہی عقد میں اس بات کو طے کرنا کہ لیز میں پلاٹ بھی شامل ہوگا یا نہیں؟اگرہوگا، تو  کتنا  فیصد شیئربکنگ کرنے والےکا ہوگا؟

5.    فلیٹ کے عقدِ استصناع کا دیگر عقد استصناع سے کئی چیزوں میں مختلف ہونا۔

6.    مستصنع مثلا فلیٹ بک کرنے والےاورصانع مثلا بلڈر پر زکوۃ کے مسائل ۔

7.    قبضہ سے قبل فلیٹس وغیرہ  کی مالکانہ حیثیت بلڈر کے تعلق سے کس نوعیت کی ہے ؟

یہ سب وہ مسائل تھے جو فلیٹ،دُکان وغیرہ کی ابتداءً بکنگ اور بیع استصناع کے وقت پیش آتے ہیں ۔لیکن مجلس تحقیقات شرعیہ کا اصل ہدف تو وہ صورت تھی، جو بکنگ کرنے کے بعد درپیش ہوتی ہے کہ ایک شخص فلیٹ یادُکان وغیرہ  کا عقد استصناع تو کر لے، لیکن قبضہ سے قبل اسے آگے بیچ دے ،تو یہ صورت کیا حکم رکھے گی ؟اس اگلے درجے کے مسئلے کےحل کے لیے پہلے مرحلے کے مسائل پر فقہی تنقیح بھی ضروری تھی، اس لیے ان مسائل پر مجلس نے جو فیصلے کیے اس کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ کیا ۔

اب دوسرے مرحلے کے مسائل کا خلاصہ ملاحظہ ہو:

فلیٹ کی سلسلہ وار بیع پربحث کا پس منظر:

     فلیٹ کی بیع میں عصر ِحاضر کا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے فلیٹ بُک کروانے کے بعد قبضہ سے پہلے ،بلکہ فلیٹ کے اصلاًوجود میں آنے سے پہلے یا اس وقت جب وہ زیر تعمیر تھا  ،آگے کسی اور کو بیچ دیا، تو کیا حکم ہے؟یہ کون سا عقد ہے؟ اور مبادلۃ المال بالمال کی یہاں کیا صورت پیش آرہی ہے ؟مستصنع اول، نیا خریدار، پھر بلڈر ان تینوں کے درمیان جو بھی معاملہ ہوگا ،اس کی تکییف فقہی کیا ہوگی ؟یہ وہ سوالات ہیں  جن  کے جزئیات پر مجلس تحقیقات شرعیہ کے 2017 سے 2021 تک چار سال کے دورانیہ میں تقریبا 5 اجلاسوں میں یہ مسئلہ زیر بحث آتا رہا اور ہر اجلاس  میں بحث ہونے کے بعداختتام پر اشکالات قائم کر کے ان کے جوابات لکھنے کے لیے دئیے جاتےرہےیا پھر تنقیح طلب پہلو پر کام دیا جاتارہا،پھر اگلے اجلاس میں دوبارہ بحث و تمحیص ہوتی رہی ۔

     فلیٹ کی سلسلہ وار خریدو فروخت پر مجلس تحقیقات شرعیہ نے جواز کا فتوی دیا ہے اور مسئلہ کی تصحیح عقد پر بھی اتفاق ہوا، لہذافلیٹس یا دُکانوں کی سلسلہ وار بیع جائز ہے اور بلڈر سے  جس نے فلیٹ یا دُکان بک کروائی ، وہ آگے اپنا نفع لے کر کسی اور کو قبضہ سے قبل یا پروجیکٹ تیار ہونے سے قبل بیچ سکتا ہے اور یوں مزید آگے بھی اس کو بیچا جا سکتا ہے ۔

اس مسئلہ کی تصحیح عقد کیا ہوگی تفصیلات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں

عقداستصناع میں حقِ ملک کے مقابل میں نزول بالعوض کی تعبیر:

     جو شخص پہلی بار فلیٹ وغیرہ بُک کروائے ،وہ مستصنع اول کہلائے گا اور جو مستصنع اول سے فلیٹ مکمل ہونے سے قبل سودا کرے ،وہ مستصنع ثانی کہلائے گا ۔مستصنع اول نےعقد استصناع کرتے ہوئے  بلڈر سے جوفلیٹ وغیرہ  بُک کروایا ہو ، اس  عقد کے نتیجے میں اس کا اصالۃ ایک حقِ ملکیت بلڈر کے ذمہ پر  ثابت ہو جاتا ہے ۔یہاں حق اس لیے ثابت ہو رہا ہے کہ زیر تعمیر بلڈنگ میں فلیٹ وغیرہ کا توعند العقد وجود بھی نہیں ہوتا ۔مستصنع اول کی بلڈر سے ڈیل کے بعد جو چیز بلڈر  کے ذمہ پر  آتی ہے،وہ حق ِملک ہوتی ہے ۔قیمت بڑھ جانے یا کسی بھی وجہ سے یہ شخص کسی اور کو یہ ڈیل منتقل کرتا ہے تو یہ اصل میں اپنےحقِ ثابث   کامعاوضہ لے کر چھوڑتا ہے اوریہ نزول عن الحق بالاعتیاض کی صورت ہے،جس کو عُرف جاری ہونے  اور ضرورت کی بنا پر فقہاء نے جائز کہا ہے ۔العرف قاض ٍعلی القیاس۔

     کتبِ فقہ میں لکھے ہوئے مسئلہ کے مطابق نزول عن الوظائف کے مسئلہ میں کہ  ایک مؤظف جب قاضی کے پاس جاتا ہے ۔ قاضی اس کا تنازل منظور کرتا ہے ۔پھر دوسرے آدمی سے یہ پرانا مؤظف اس کے لیے اپنا حق چھوڑنے کے بعد پیسے وصول کرتا ہے اور دوسرا شخص قاضی کی منظوری سے تقرری حاصل کرتا ہے ۔

     اس پوری کاروائی میں پرانا مؤظف سب سے پہلے  اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیا رہوتا ہے اور قاضی کے پاس جا کر تنازل کرتا ہے، اس کے بدلے اپنی جگہ آنے والے شخص سے معاوضہ وصول کرتا ہے اور پھر نیا آنے والا وقف وغیرہ کے ناظم سے اپنی تقرری چاہتا ہے اور اپنا ایک معاہدہ کرتا ہے ۔

     اسی انداز سے مستصنع اول کا بلڈر کے ساتھ جو استصناع کا معاہدہ تھا اور تیار شدہ فلیٹ جو اسے بلڈر نے بنا کر دینا تھا یہ اس حقِ ملک سے پیچھے ہٹتا ہے  اور اپنی اس دستبرداری کے بدلے نئی بکنگ کروانے والے یعنی مستصنع ثانی سے اون (OWN)کی مد میں معاوضہ طلب کرتا ہے،یہاں چونکہ بلڈر کی طرف سے عرفاً تنازل کی اجازت ہوتی ہے،  اس لیے یہ لوگ شروع ہی میں اپنا معاہدہ کر لیتے ہیں، لین دین بھی کر لیتے ہیں، پھر بلڈر کے پاس آکر فائل پر نام تبدیل کرواتے ہیں اور بلڈر کی فیس کی ادائیگی اور نیا آنے والا گاہک اب بلڈر کو کتنی رقم کی ادئیگی کرے گا،یہ سب طے ہوتا ہے ۔

     پہلی صورت میں کوئی فقہی اشکال بھی ہو، تو پھر اسی صورت کی دوسری توجیہ یہ ہوگی کہ ابتداءً جو کیا گیا، وہ اس وقت نافذ ہوا جب بلڈر نے تنازل منظور کر لیا ۔

مستصنع ثانی کا بلڈر سے ضمنا عقد ثابت ہونا:

     اگرچہ مستصنع ثانی عام طور پر بلڈر سے جا کر کوئی باقاعدہ ایجاب و قبول نہیں کرتا اور نہ ہی  اس طرح کی ڈیل میں بلڈر کو عرف میں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مستصنع ثانی کے ساتھ نیا عقد ہونے کی وجہ سے نئی قیمت پر سودا کرے، لیکن ابتدا ہی میں جب اس کا معاہدہ مستصنع اول سے ہوتا ہے ،تو یہ معاہدہ ضمنا بلڈر کے ساتھ عقد استصناع کو بھی شامل ہوتا ہے اور پھر مستصنع ثانی جب بلڈر کے پاس جا کرکاغذات اپنے نام کرواتا ہے ،تو اب اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ مستصنع ثانی اور بلڈر کے درمیان ایک مستقل عقد ہوا ہے اور مستصنع اول کو بلڈر نے جس ریٹ پر مال بیچا تھا اس ریٹ اور انہی شرائط پر یہ اب مستصنع ثانی کو دینے کا پابند ہے اور بلڈر بھی جب اپنی طرف سے نئی قیمت  آفر کرنے کے حق کو استعمال نہ کرنے پر راضی ہو، تو یہاں اس بنا پر کسی اعتراض کا کوئی محل نہیں ۔عرف کا لحاظ کرناہم سب پر لازم ہے ۔عقود میں اصل تراضی طرفین ہے، جو یہاں پائی جا رہی ہے اور کوئی خارجی اعتبار سے مانع بھی موجود نہیں ہے۔

     مستصنع ثانی کا بلڈر کے ساتھ عقد ہونا ضمنی اس لیے مانا گیا ہے کہ مستقل عقد کی اپنی جو شرائط و ضوابط ہیں ضمنی طور پر پائی جا رہی ہوتی ہیں ،ایسا نہیں ہوتا کہ سب سے پہلے مستصنع ثانی بلڈر سے جا کر اجازت لے ،پھر مستصنع اول سے ڈیل کرے، بلکہ مستصنع اول  سے ڈیل کا مطلب ہی یہاں یہ ہوتا ہے کہ بلڈر سے بھی ڈیل ہونا ہے اور بلڈر کی طرف سے پیشگی اجازت و آفر ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی بکنگ کسی دوسرے کے نام کر سکتا ہے۔ کتب میں ضمنی عقد کی کئی امثلہ موجود ہیں ،جو  اس موضوع کی بحث میں الگ سے جو مقالہ  دلائل کے اثبات پر لکھا جاچکا ہے،اس میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

زیر بحث مسئلہ کی مثال کے ذریعے تفہیم:

     ایک فلیٹ مستصنع اول نے بک کرایا 50 لاکھ روپے کا اور 10 لاکھ روپے وہ جمع کرواچکا ہے  ۔ایسے میں ایک شخص مستصنع ثانی کے طور پر آکر اسے 10 لاکھ روپے زائد دے کر فلیٹ کی بکنگ لینا چاہتا ہے ، تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ مستصنع اول ،مستصنع ثانی سے اپنے  حق کا عوض (10لاکھ)بصور ت اون(OWN)لے کر اس سے دستبردار ہوجاتا ہے ،لیکن مستصنع ثانی ،مستصنع اول کو 20 لاکھ روپے کیش ادائیگی کرتا ہے ،اس معاہدے کے نتیجے میں  اقتضاء  بلڈر اور مستصنع اول کے مابین عقد ِسابق فسخ ہوتا ہے اورضمنا جدید عقد  استصناع مستصنع ثانی اور بلڈر کے مابین وجود میں آتا ہے (50 لاکھ کے عوض) جس کے 10 لاکھ روپے مستصنع اول کو بلڈر نے واپس کرنے ہوتے ہیں، جو مستصنع ثانی اپنے پاس سے مستصنع اول کو پہلے ہی دے چکا ہے ، یوں اس موقع پر مستصنع ثانی  بلڈر سے اپنے حساب 50 لاکھ میں 10 لاکھ کم کروالیتا ہے ۔

ایک اور ممکنہ صورت اور تصحیح عقد کی تفہیم

     یہاں ایک اشکال وارد ہو سکتا ہے کہ اگر فلیٹ بغیر نفع کے بکنگ ریٹ پر ہی بیچا جارہا ہو یانقصان میں بیچا جارہا ہو تو آپ اپنی توجیہ پر اس کی تصحیح عقد کیا کریں گے؟اس کا جوا ب یہ ہے کہ ایسا شاذ ونادر ہوتا ہے وہ بھی اس وقت جب کوئی پروجیکٹ مکمل فلاپ ہوجائے اور ایسی صورت میں لوگ کسی اور کو بیچنے کی  بجائے بلڈر کو بقیہ اقساط ادا نہیں کرتے  اور ایسے ہی چھوڑدیتے ہیں کہ اگر آئندہ سالوں میں پروجیکٹ فعال ہوا اور قیمت بڑھ گئی ،تو اس وقت بیچ دیں گے۔اگر بالفرض (50 کی بکنگ والا فلیٹ 40میں بیچنے والی صورت)کو تسلیم کرلیں، تو نزول عن الحق بلاعوض ہوگا،بقیہ اقساط کا حوالہ مستصنع اول سے مستصنع ثانی  پر ہوجائے گااور اس میں شرعا کوئی قباحت بھی نہیں کہ جب عوض کے بدلہ نزول عن الحق جائز ہے تو بلا عوض بدرجہ اولی جائز ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

تاریخ اجراء:14ربیع الثانی1444ھ/10نومبر2022ء