کلیئرنگ ایجنٹ سے متعلق ایک سوال کا جواب

مصدق:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ رجب المرجب1441ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کنٹینر وغیرہ باہر سے شپ کے ذریعے آتے ہیں اب جس کا کارگو ہوتا ہے وہ کسی اور سے ڈپازٹ لگواتا ہے اور جس سے ڈپازٹ لگواتا ہے اسے اس کا نفع بھی دیتا ہے جس شپنگ لائن کا کنٹینر اس کے پاس جاتا ہے وہ شپنگ لائن ڈپازٹ رکھتی ہے، کوئی بھی بندہ ڈپازٹ لگوا سکتا ہے، ایک یا ڈیڑھ لاکھ کا ڈپازٹ ہوتا ہے۔ اب اگر ہم اپنے پیسے ڈپازٹ لگاتے ہیں تو جب کنٹینر واپس شپنگ لائن کو ریسیو ہوجاتا ہے تو وہ ڈپازٹ کے پیسے ہمیں واپسی دے دیتی ہے اور جس کا کارگو تھا اس سے دو تین ہزار جتنی بات ہوئی تھی وہ مزید اس سے ہم وصول کرلیتے ہیں تو  کیا یہ پیسے لینا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پہلے تو ہم سوال کے پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کنٹینر باہر نکلتا ہے تو اسے خالی ہو کر واپس بھی آنا ہوتا ہے مثال کے طور پر کراچی سے رحیم یار خان گیا تو اب اگر وہاں سے واپس ہی نہ آئے تو کنٹینر والا پھنس جائے گا وہ اپنا خالی کنٹینر کیسے منگوائے گا؟ لہٰذا جس کا مال کنٹینر کے ذریعے جارہا ہے اس کے ذمّے یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ وہ کچھ زرضمانت جمع کروائے اور جب کنٹینر واپس کرے تو یہ زرِضمانت اس کو واپس مل جائے۔ اب وہ مالکان جو مال امپورٹ کرتے ہیں وہ زرِضمانت کے طور پر پیسے جمع کروانے سے منع کردیتے ہیں تو کلیئرنگ ایجنٹ یہ رقم اپنی جیب سے لگاتا ہے اور جب مال زیادہ آتا ہے اور جمع کروانے کے لئے پیسے کم پڑتے ہیں تو وہ دیگر لوگوں سے پیسے پکڑتا ہے اور جمع کروادیتا ہے۔ اگر یہ پیسے وہ تاجر یا سیٹھ جمع کرواتا جس نے یہ کنٹینر منگوایا ہے تو پھر سارا معاملہ اصول کے مطابق ہوتا لیکن یہاں ایک آؤٹ سائیڈر اپنے پیسے دیتا ہے اور وہ  اس لالچ میں پیسے دیتا ہے کہ اتنے پیسے دینے پر اتنا نفع اوپر ملے گا، یہ سودی معاملہ ہے کیونکہ اس نے جو رقم دی وہ قرض ہے اور قرض پر نفع لینا سود ہے جو کہ حرام و گناہ ہے۔حدیثِ مبارک میں ہے:کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا ترجمہ:قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔

(کنزالعمال،جز6،ج 3،ص99،حدیث:15512)

    اس رقم کے قرض ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس رقم سے کوئی کاروبار کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اسے لے کر زرِضمانت کے طور پر رکھ دیا جائے گا اور کنٹینر واپس ہونے پر وہ رقم اسے لوٹا دی جائے گی اور رقم والے کو فکس نفع ملے گا جو کہ قرض پر نفع ہے۔

    واضح رہے کہ اس کے علاوہ بھی کلیئرنگ ایجنٹس کی غالب اکثریت بہت سے ناجائز کام کرتی ہے مثلاً رشوت دینا، غلط ڈاکومنٹس کے ذریعے مال کلیئر کروانا، دھوکا دینا وغیرہ۔ان تمام ناجائز کاموں سے بچنا ضروری ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم