اجیر کا آگے کسی اور سے اُجرت پر کام کروانا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاخریٰ1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ خدمات فراہم کرنے کے حوالے سے آج کل ایک انداز یہ بھی اپنایا جارہاہے کہ ایک کمپنی ہے جو خدمات فراہم کرتی ہے لیکن وہ خود براہِ راست خدمات فراہم نہیں کرتی بلکہ آگے کسی اور سے کام لیتی ہے،مثال کے طور پر میسن کا  کام ہے یا کسی بہت بڑے پلازے یا ہوٹل کی صفائی ستھرائی کا معاملہ ہے تو یہ کام وہ کمپنی خود نہیں کرتی بلکہ آگے کسی چھوٹے ٹھیکیدار کو کم ریٹ میں یہ کام دے دیتی ہے اس سے پرافٹ حاصل ہوتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں! یہ جائز ہے۔ بنیادی طور پر یہاں کام کا اِجارہ ہوتا ہے اور جس کام کا اجارہ کیا ہے وہ کام کمپنی کے مالکان خود تو نہیں کریں گے بلکہ ظاہر ہے ملازمین سے ہی کروائیں گے جب ملازمین سے کرواسکتے ہیں تو کسی اورکمپنی یا ٹھیکیدار سے بھی کرواسکتے ہیں۔ ایسا کرنا بالکل جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال ہے۔بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر یہ شرط نہیں ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرے گا دوسرے سے بھی کراسکتا ہے اپنے شاگرد سے کرائے یا نوکر سے کرائے یا دوسرے سے اُجرت پر کرائے سب صورتیں جائز ہیں۔“

(بہارِ شریعت،ج 3،ص119)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم