مقدس تحریر والے کاغذات ردّی میں بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم کاپیاں، ردّی ،کاغذ وغیرہ ایک کمپنی سے سترہ(17) روپے کے حساب سے خریدتے ہیں اور پھر اُنیس(19) روپے کے حساب سے آگے بیچ دیتے ہیں۔ اگر ہم اس کے پاس پچاس ہزار(50000) روپے رکھوادیں تو ہمیں بارہ، تیرہ (12,13) روپے کے حساب سےردّی مل جائے گی، یوں ہمیں اچھا خاصہ فائدہ ہوجائے گا۔کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ آپ کون سی ردّی خرید رہے ہیں؟ اسلامیات کی کاپیاں جن میں آیات لکھی ہوں گی احادیث لکھی ہوں گی اسی طرح اردو کی کتابوں میں بھی دینی مضامین ہوتے ہیں اور بہت سارا ایسا مواد ہوتا ہے جو دینیات پر مشتمل ہوتا ہے ایسی چیزوں کو ردّی میں بیچنے اور خریدنے کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے؟کئی اخبارات میں بھی آیات، ان کا ترجمہ، احادیث اور دیگر مقدس کلمات لکھے ہوتے ہیں اور کتنی بڑی بےحسی ہے کہ مسلمان ان مقدس لکھائی والے کا غذات کو ایسی جگہ استعمال کررہے ہوتے ہیں جہاں ان کا ادب و احترام بالکل نہیں پایا جاتا حالانکہ خود حروف بھی قابلِ تعظیم ہیں۔

    جیساکہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائق اہانت و تذلیل ہے۔حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے۔“

(فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص 336، 337)

    پوچھی گئی صورت میں بھی جب معلوم ہے کہ یہ ردّی پکوڑے بیچنے والوں اور پرچون والوں کو بیچی جائے گی جس کی پڑیا بنا کر وہ اس میں سامان بیچیں گے تو یہاں اس تحریر کا احترام تو نہیں پایا جائے گا حالانکہ حروفِ تہجی (Alphabets) کا بھی احترام کرنے کا حکم ہے پھر اگر وہ لکھائی دینیات پر مشتمل ہے تو اور زیادہ احترام کرنا ہوگا۔ لہٰذااولاً تو آپ اپنے کاروبار (Business)پر غور کریں کہ اس میں کیا ہوتا ہے اور جو بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔

    بالفرض ردّی نہ ہو بلکہ کوئی اور چیز ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ خریدنے والا ایک بڑی رقم بیچنے والے کے پاس رکھوادے اور اس کی وجہ سے اس کو مال سستا دے دیا جائے کیونکہ جو رقم رکھوائی ہے وہ قرض ہے اور قرض کی وجہ سے سستا دینا سُود ہے، لہٰذا یہ طریقہ جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم