مویشیوں میں انویسٹمنٹ کا شرعی طریقہ

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالحجۃالحرام1440ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم پچیس ہزار کا جانور خریدتے ہیں اور کسی کو پالنے کے لئے دے دیتے ہیں، جب وہ جانور بڑا ہوجاتا ہے تو اس کو بیچ کر آدھے پیسے پالنے والا لے لیتا ہے اورآدھے پیسے خرید کر دینے والا۔ کیا یہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    یہ طریقہ کار جائز نہیں، کیونکہ یہاں جانور کو پالنے والا جو کام کررہا ہے اس کی اجرت میں ابہام ہے۔عام طور سے جانوروں میں دو افراد کے مشترکہ کام میں ایک کے جانور ہوتے ہیں اور دوسرا ان کو پال کر اپنی آمدنی کا ذریعہ پیدا کرتا ہےلیکن شرعی خرابی سے بچتے ہوئے درست طریقہ کار اپنا کر کام کریں تو شرعی طور پر ان کا معاہدہ اور آمدنی جائز ہو سکتی ہے۔

    اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ جانور میں پالنے والے کو بھی مالک بنالیں یعنی جانور آدھا اسے کسی طویل المدت اُدھار میں بیچ دیں۔ اب چونکہ اس جانور کے دونوں مالک ہیں لہٰذا اس کے جو بھی منافع ہوں گے، یونہی اس کو فروخت کرنے پر جو رقم حاصل ہوگی وہ دونوں کے درمیان مشترک ہوگی۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ جانور خریدا گیا بیس ہزار کا، جس نے خریدا اس نےاس جانور کی ملکیت میں دس ہزار روپے سے دوسرے شخص کو یعنی جس نے جانور پالنا تھا اس کو شامل کرلیا، اگرچہ پالنے والے کے پاس فوری طور پر اس ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں جو جانور کا مالک بننے پر اس کو کرنی ہے لیکن چونکہ یہ سودا اُدھار میں ہوا ہے لہٰذا یہ اس کی ادائیگی بعد میں کرے گا اور اُدھار کی مدت ایسی ہونی چاہیے کہ اندازاً جب جانور بیچنا ہو اس کے آس پاس کی ہو مثلاً معلوم ہے کہ دو سال بعد بیچیں گے تو دو سال کی مدت رکھ لیں۔ اب مثلاً دو سال بعد یہ جانور اَسی ہزار کا فروخت ہوا، چالیس چالیس ہزار روپے دونوں میں تقسیم ہوئےاور پالنے والے نے دس ہزار روپے اپنے اُدھار کی مد میں ادا کردئیے۔ یوں تیس ہزار روپے اس کو نفع ہوگیا۔ اس دوران اگر جانور کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے مالک بھی دونوں افراد ہوں گے۔ اس مسئلے میں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جانور پالنے والا اگر خرید کر چارہ کھلاتا ہے تو اس کا خرچہ صرف اُسی پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ دونوں افراد پر آئے گا۔

    بہار شریعت میں ہے:”ایک شخص کی گائے ہے اس نے دوسرے کو دی کہ وہ اسے پالے چارہ کھلائے نگہداشت کرے اور جو بچہ پیدا ہو اس میں دونوں نصف نصف کے شریک ہوں گے تو یہ شرکت بھی فاسد ہے بچہ اس کا ہوگا جس کی گائے ہے اور دوسرے کو اسی کے مثل چارہ دلایا جائے گا،جو اسے کھلایا اور نگہداشت وغیرہ جو کام کیا اس کی اجرتِ مثل ملے گی اس کے جواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ گائے بکری مرغی وغیرہ میں آدھی دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں اب چونکہ ان جانوروں میں شرکت ہوگئی بچے بھی مشترک ہوں گے۔“(بہار شریعت،ج 2،ص512)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم