پانی کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

مجیب:  مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رمضان المبارک 1440ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ پانی کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟ نیز یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ بعض جگہوں پر پانی لیٹر میں بیچا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر گیلن میں، تو اس میں سے کون سی صورت جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جو پانی اپنی ملکیت میں ہو، اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے: ”وہ پانی جس کو گھڑوں، مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کردیا گیا ہو اس کو بغیر اجازتِ مالک کوئی شخص صَرف میں نہیں لاسکتا اور اس پانی کو اس کا مالک بیع بھی کرسکتا ہے۔“(بہارِ شریعت،3/667)

    عام طور پر بوتل یا گیلن وغیرہ جس میں پانی دیا جاتا ہے وہ خود ایک پیمانہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے البتہ وہ بوتل کتنے لیٹر کی ہے بعض اوقات یہ معلوم نہیں ہوتا لیکن بوتل ہمارے سامنے ہی ہوتی ہے اور یہ پتا ہوتا ہے کہ اس بوتل میں ہم نے خریدا ہے تو یہاں بوتل خود ایک پیمانہ ہے اور ابہام یہاں موجود نہیں ہے لہٰذا اس طرح خرید و فروخت جائز ہے۔ بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر یہ کہہ دیا کہ مہینے میں اتنی مشکیں پلاؤ اور مشک معلوم ہے تو جائز ہے۔“(بہارِ شریعت،2/698)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم