اجارہ کے وقت میں کوئی اور کام کرنا

مجیب: مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ فروری/مارچ 2019

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک محکمہ میں مسجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا، مکمل کام ٹھیکے پر کروایا جارہا تھا، مسجد کے دوسرے فلور پر جانے کے لیے سیڑھی بنائی گئی، ٹھیکیدار نے سیڑھی کو پانی نہیں لگوایا، جب وہاں کے ذمہ دار نے سیڑھی کو دیکھا تو اس نے ٹھیکیدار کو کہا کہ ”اس سیڑھی کو پانی لگوائیں  ورنہ یہ خراب ہوجائے گی“ تو ٹھیکیدار نے جواباً کہا:’’ آپ کسی سے پانی لگوالیں، میں ایک ہزار روپے اجرت دے دوں گا‘‘،پھر ٹھیکیدار نے اس محکمہ کے خادم سے اس کے اجارہ ٹائم میں پانی لگوایا اور اسے ایک ہزار روپے اجرت دیدی، حالانکہ اس خادم کا محکمہ میں جس کام پر اجارہ تھا وہ موجود تھا اس کو چھوڑ کر اس نے پانی لگایا۔ شرعی رہنمائی درکار ہے کہ(1)خادم کا وقت اجارہ میں سیڑھی کو پانی لگانے کا کام کرنا اور ہزار روپے اجرت لینا کیسا تھا؟ (2)اگر وہ اجرت کا حقدار نہیں ہے تو کیا یہ رقم خادم سے لے کر ٹھیکیدار کو واپس دی جائے یا مسجد کے فنڈ میں ڈال دیں؟ (3)خادم نے جتنا وقت سیڑھی کو پانی لگانے کا کام کیا اس کی اتنے وقت کی کٹوتی ہوگی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1تا3)صورت مسئولہ میں اس محکمہ کا خادم اجیر خاص ہے۔ اس کے لیے دوران اجارہ ٹھیکیدار سے سیڑھی کو پانی لگانے کا اجارہ کرنا، ناجائز و حرام تھا، البتہ جب اس نے پانی لگادیا تو وہ اجرت کا مستحق ہوگیا، لہٰذا جو اجرت ٹھیکیدار نے اسے دی وہ اسی کا حق ہے، وہ نہ تو ٹھیکیدار کو واپس دی جائے گی اور نہ ہی مسجد فنڈ میں ڈالی جائے گی، نیز خادم کے لیے لازم ہے کہ اس گناہ سے توبہ کرے اور جتنا وقت دوران اجارہ سیڑھی کو پانی لگایا اتنے وقت کا صحیح تعین کرکے اپنی اجرت سے کٹوتی کروائے۔

    اس میں تفصیل یہ ہے کہ اجیر خاص (یعنی جو شخص خاص وقت میں خاص شخص کا اجیر ہو اس) پر لازم ہوتاہے کہ وہ وقت اجارہ میں مستاجر (جس کا ملازم ہے اس) کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق اچھے طریقے سے کام سرانجام دے، اس دوران وہ اپنا ذاتی یا کسی اور کا کام یا دوسری جگہ اجارہ نہ کرے، اگر وہ کرے گا تو گنہگار ہوگا، اگر اس دوران وہ دوسری جگہ اجارہ کرے تو  پہلے مقررہ کام میں سے جتنا وقت کام ترک کیا اتنے وقت کی کٹوتی کروانا بھی لازم ہوگا، البتہ اس صورت میں دوسری جگہ جو کام کیا، اس کی اجرت کا اجیر مستحق ہوجاتا ہے۔

    اجیر خاص کی تعریف کے متعلق در مختار مع رد المحتار میں ہے: ترجمہ:اجیرخاص کا دوسرا نام اکیلے شخص کا اجیر ہے، اور اس سے مراد وہ شخص ہے جو وقت خاص میں کسی ایک کا کام کرے، اور یہ مدت اجارہ میں تسلیم نفس کے ساتھ اجرت کا حق دار ہوگا اگرچہ (مستاجر کی طرف سے کام نہ ملنے کی صورت میں) کام نہ کرے، مثلاً کسی کو ایک ماہ تک خدمت یا بکریاں چرانے کے لیے معین اجرت کے بدلے میں اجیر رکھنا۔ (در مختار،9/117)

    اجیر خاص کا بوقت اجارہ کسی دوسرے کا کام کرنے کے متعلق  درمختار میں ہے: ترجمہ: اجیر خاص کو جائز نہیں کہ دوسروں کا کام کرے اگر اس نے ایسا کیا تو اتنی رقم اس کی تنخواہ سے کاٹ لی جائے گی۔ (درمختار،9/119)

    محیط برہانی میں ہے:ترجمہ: جو شخص من کل الوجوہ اجیرخاص ہو یعنی خاص مدت تک اس سے عقد اجارہ کیا گیا اور اس نے اسی مدت میں دوسرے سے بھی ایسے کام پر اجارہ کر لیا کہ دونوں کام ایک ساتھ کرنا ممکن نہیں مثلاً کسی دن ایک درہم کے بدلے میں کھیتی کی کٹائی یا خدمت کرنے پر اجارہ کیا پھر جس سے اجارہ کیا تھا اس کے علاوہ کسی کے لیے کچھ وقت کھیتی کی کٹائی یا خدمت کرنے میں وقت صرف کیا تو پہلی جگہ سے پوری تنخواہ کا مستحق نہیں ہو گا (بلکہ جتنا ٹائم دوسری جگہ صرف کیا پہلی جگہ سے اتنی کٹوتی کروانی ہوگی) اور گناہ گار بھی ہوگا۔(محیط برہانی ،9/331)

    امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے، اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ ہو ۔۔۔۔ بہرحال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی۔(فتاویٰ رضویہ،19/506)

    بہارشریعت میں ہے: اجیر خاص نے اگر دوسرے کا کام کیا تو جتنا کام کیا ہے اسی حساب سے اس کی اجرت کم کردی جائے گی۔(بہارشریعت،حصہ:14،3/161)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم