ایک روپے کی چیز دس روپے میں بیچنا کیسا؟

مجیب: مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری/فروری 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ کیا ایک روپے کی چیز دس روپے میں بیچنا جائز ہے؟

 سائل:محمدمحسن عطّاری(مرکز الاولیاء،لاہور(

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب کوئی مانعِ شرعی (جیسا کہ جھوٹ اور دھوکا وغیرہ) نہ ہو تو ایک روپے کی چیز باہم رضا مندی سے دس روپے میں بیچنا جائز ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے نفع کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن سے سوال ہوا کہ’’چار پیسے کی چیز کا دُگنی یا تین گنی قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے؟‘‘ تو جواباً ارشاد فرمایا: ’’(ماقبل اور یہ)دونوں باتیں جائز ہیں جبکہ جھوٹ نہ بولے فریب نہ کرے مثلاً کہا خرچ وغیرہ ملا کر مجھے سوا چار میں پڑی ہے اور پڑی تھی پونے چار کو یا خرید وغیرہ ٹھیک بتائے مگر مال بدل دیا،یہ دھوکا ہے یہ صورتیں حرام ہیں ورنہ چیزوں کے مول لگانے میں کمی بیشی حرج نہیں رکھتی۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،17/139)

    لیکن مناسب یہ ہے کہ لوگ جو نفع عمومی طور پر لیتے ہیں وہی لیاجائےکیونکہ جو زیادہ نفع لیتاہے لوگ اس سے کم خریداری کرتے ہیں اور باتیں بھی بناتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم