اسمگلنگ کے بارے میں شرعی حکم

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر/اکتوبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ اسمگلنگ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ یعنی دوسرے ملک سے چاندی سونایا گھڑی اور کپڑا وغیرہ لاکر بیچناشرع کے نزدیک کیسا ہے جب کہ ملکی قانون کےاعتبار سے جرم ہے؟ مطلب اس صورت میں جرم ہے جب چُھپا کرلایا جائے اور جو ٹیکس بنتا ہے وہ نہ دیا جائے ایسا دو طرح سے ہوتا ہے ایک تو رسمی راستوں کے بجائے کشتیوں یا خفیہ راستوں کے ذریعے کیا جاتا ہے دوسرا یہ کہ سی پورٹ یا ائیر پورٹ کے ذریعے ہی سامان آتا ہے لیکن اندر کے لوگوں سے کھانچے ہوتے ہیں جس کی بنا پر رشوت وغیرہ دے کر ٹیکس بچا لیا جاتا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جن چیزوں کی خریدو فروخت حلال ہے صرف اسمگلنگ کی وجہ سے وہ چیزیں حرام نہیں ہو جائیں گی البتہ ایسا  طریقہ اختیار کرنا، ناجائز کہلائے گا۔ ناجائز  ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے، پکڑے جانے پر قید و بند اور رسوائی لازمی چیز ہے پھر اس کام کو جاری رکھنے کے لئے رشوتیں دینا پڑتی ہیں جو خود الگ سے حرام کام ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم