مُردہ جانور کی کھال بیچنا کیسا ؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ    بعض لو گ مُردہ جا نور کی کھا ل اُتا ر کر بیچ دیتے ہیں ان کا کھا ل اُتا رنا اور اس کو بیچنا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

        پوچھی گئی صورت میں کھا ل اُتار کر اگر دَبا غَت کے بعد بیچتے ہیں تو جا ئز ہے ورنہ جا ئز نہیں ہے۔اعلیٰ حضر ت امامِ اَہلِسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے سوا ل ہوا کہ کھا لِ مردہ کا بیچنا جا ئز ہے یا نہیں ؟اس کا جو اب کچھ یوں ارشاد فرمایا: ’’کھا ل اگر پکا کر یا دھو پ میں سکھا کر دباغت کر لی جا ئے تو بیچنا جا ئز ہے لِطَھَارَتِہٖ وَ حِلِّ الْاِنْتِفَاعِ (بسبب اس کی طہارت کے اور اس سے نفع کے حلا ل ہو نے کی وجہ سے) ورنہ حرام وباطل ہے لِاَنَّہٗ جُزْءُ مَیِّتٍ وَبَیْعُ الْمَیْتَۃِ بَاطِلٌ (اس لئے کہ وہ مردار کی جُز ہے اور مر دار کی بیع با طل ہے)۔‘‘(فتاوی رضو یہ،17/161)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم