کفّار کے میلوں میں مسلمان کا دُکان لگانا کیسا ؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کفّار کے میلوں میں مسلمان کادُکان لگانا کیساہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں امامِ اَہلِسنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن نے فتاوٰی رضویہ شریف میں بہت تفصیل سے جواب دیا ہے وہ ملاحظہ ہو: ”اگر وہ میلہ اُن کا مذہبی ہےجس میں جمع ہوکر اعلانِ کفر و اَدائے رُسومِ شرک(یعنی اعلانیہ شعائرِ کفر وشرک کی ادائیگی) کریں گے تو بقصدِ تجارت بھی جانا ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے،اور ہرمکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہرصغیرہ اصرار سے کبیرہ۔

    علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مَعابدِ کفّار(یعنی کفّار کی عبادت گاہوں)میں جانا مسلمان کو جائزنہیں، اور اس کی علّت یہی فرماتے ہیں کہ وہ مجمعِ شیاطین(شیطانوں کے جمع ہونے کی جگہیں) ہیں، یہ قطعاً یہاں بھی مُتَحَقَّق، بلکہ جب وہ مجمع بغرضِ عبادت ِغیرِخدا (یعنی غیرِ خدا کی عبادت کےلئے)ہے تو حقیقۃً معابدِ کفّار(کافروں کے عبادت خانے کے حکم )میں داخل کہ مَعْبَد (عبادت خانہ) بوجہِ اُن اَفعال کے مَعْبَد ہیں،نہ بسببِ سقف ودیوار(نہ کہ چھت اور  دیوار کی وجہ سے)،۔۔۔اور اگر وہ مجمع مذہبی نہیں بلکہ صرف لہوولعب (کھیل کود)کا میلاہے تو محض بغرضِ تجارت جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں جبکہ کسی گناہ کی طرف مؤدی (لے جانے والا) نہ ہو، علماء فرماتے ہیں مسلمان تاجر کو جائز کہ کنیز وغلام وآلاتِ حرب(جنگی ساز و سامان) مثلِ اَسْپ(گھوڑا) و سِلاح(لڑائی کے ہتھیار) وآہَن وغیرہ کے سوا اورمال کفّار کے ہاتھ بیچنے کے لئے دارُالحرب میں لے جائے اگرچہ اِحْتِرَاز افضل، توہندوستان میں کہ عندالتحقیق دارُالحرب نہیں ، مجمعِ غیرمذہبی کَفَرَہ (کافروں کے غیر مذہبی مجمع) میں تجارت کےلئے مال لے جانا بدرجۂ اولیٰ جوازرکھتاہے۔۔۔پھربھی کراہت سےخالی نہیں کہ وہ ہروقت مَعَاذَ اللہ محلِّ نزولِ لعنت (لعنت کے اُترنے کی جگہیں) ہیں تو اُن سے دوری بہتر، یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں اُن کے محلّہ میں ہو کر گزرہو تو شتابی (جلدی) کرتاہوا نکل جائے  وہاں آہستہ چلناناپسند رکھتے ہیں تورُکنا ٹھہرنابدرجۂ اولیٰ مکروہ۔۔پھرہم صدرِکلام (ابتدائے کلام) میں ایما(اشارہ) کر چکے کہ یہ جواز بھی اُسی صورت میں ہے کہ اسے وہاں جانے میں کسی معصیَّت (گناہ)کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اُس سے دور و بیگانہ موضع (یعنی دُور الگ تھلگ مقام ) میں جگہ نہ ہو تو یہ جانا مستلزمِ معصیَّت(یعنی گناہ کو لازم کرنے والا) ہوگا اور ہرملزومِ معصیَّت، معصیَّت (گناہ کو  لازم کرنے والی ہر بات  خود  گناہ  ہے)اور جانا محض بغرضِ تجارت ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت کہ اس نیت سے مطلقاً ممنوع اگرچہ مجمع غیر  مذہبی ہو۔(فتاوی رضویہ،23/523 تا 526ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم