پرائز بانڈ اور اس کے انعام کا حکم؟

مجیب:    مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پرائز بانڈ لینا اور اس سے نکلا ہوا انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں۔کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پرائز بانڈ کی خرید و فروخت اوراس پرقرعہ اندازی کے ذریعہ نکلنے والاانعام حاصل کرنادونوں ہی درست ہیں کہ اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ نہ تو اس میں سود کا پہلو ہے کہ جتنے روپے دے کر بانڈ حاصل کیا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اس پر نفع ملنا مشروط ہونہ ہی حکومت یہ وعدہ یا معاہدہ کرتی ہے کہ جو جو بھی خریدے گااسے انعام کی رقم ضرور دی جائے گی لہٰذا کسی بھی اعتبار سے سود کا کوئی پہلو اس میں نہیں بنتا، نہ ہی پرائز بانڈ کے اندر جوئے کا کوئی پہلو ہے کہ جتنے روپے جمع کرواکر پرائز بانڈ لیا ہے ایسا نہیں کہ یہ روپے وقت گزرنے پر بانڈ دیتے وقت کم ملیں گے یا سرے سے ہی نہیں ملیں گے۔ البتہ  حال ہی میں اسٹیٹ بینک  پاکستان کی طرف سے چالیس ہزار والا جو پریمیم بانڈ جاری کیا گیا ہے اس کی خریدو فروخت حرام ہے  کیونکہ وہ سودی معاملہ  پر مشتمل ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم