دو طرفہ بروکری لینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بروکر کاخریداراور فروخت کنندہ دونوں سے بروکری لینا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں اگر کسی جگہ دو طرفہ بروکری لینےکا عُرف ہو تو بروکر  کا دوطرفہ بروکری لینا جائز ہے۔ البتہ بروکر کے لیے یہ ضروری ہے کہ بروکر دونوں طرف سے بھاگ دوڑ کرے اور کوشش و سعی کرے۔ دو طرفہ بروکری لینا اسی وقت جائز ہے جب سودا طے کرواتے وقت کسی ایک کی نمائندگی نہ کرے اگر کسی  ایک  کی نمائندگی کرے گا تو پھر سامنے والی پارٹی سے بروکری نہیں لے سکتا بلکہ صرف اسی سے بروکری لینے کا حقدار ہوگا جس کی اس نے نمائندگی کی ہے۔

     اس کو یوں سمجھئے کہ ایک بروکر نے دو نوں پارٹیوں کو ملوانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کی اور دونوں سے طے کیا کہ آپ دونوں مجھے اتنا کمیشن  دیں گے لیکن ہوا یہ کہ جب دونوں اصل فریقین کے بیٹھ کر سودا سائن کرنے یا زبانی طور پر سودا پکا کرنےاور ایجاب و قبول کا موقع آیا تو ایک فریق نے بروکر سے کہہ دیا کہ میں نہیں آسکوں گا میری طرف سے تم دوسری پارٹی سے  یہ ڈیل فائنل کر لو تو ایسی صورت میں چونکہ ایک فریق خود یا بروکر کے علاوہ اس کا کوئی اور نمائندہ موجود نہیں تھا بلکہ بروکر یا کمیشن ایجنٹ کو ایک فریق کی نمائندگی کرنا پڑی تو ایسی صورت میں بروکر دو طرف سے کمیشن نہیں لے سکتا صرف  اس فریق سے کمیشن وصول کرنے کا حق دار ہے جس کا نمائندہ بن کر اس نے سودا فائنل کیا۔

     اس کے بَرخلاف زیرِ بحث صورت میں اگر اصل فریق بروکر کے علاوہ کسی اور کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتا یا خود آکر ڈیل فائنل کرتا تو بروکر شرعی اعتبار سے دو طرفہ بروکری یا کمیشن کا حق دار ٹھہرتا۔(ماخوذ ازتنقیح الفتاوی الحامدیہ،1/259 ،بہار شریعت،2/639مکتبہ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم