پرانی  ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں میڈیکل اسٹور(Medical Store) چلاتا ہوں کچھ ادویات ہمار ے پاس اسٹاک(Stock)رکھی ہوتی ہیں بسا اوقات ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرسکتے ہیں یا ہمیں اِن ادویات کو پرانی قیمت پرہی فروخت کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جب دکاندار نے کوئی مال خرید لیا تو دکاندار اس مال کا مالک بن گیا اب وہ اس  مال کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فروخت کرسکتا ہے، اصولی طور پر تو وہ مالک ہے، جتنے کا چاہے فروخت کرے، البتہ فقہائے کرام نے حکام کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتیں مقرر کرسکتے ہیں ۔

     لہٰذا اگر حکومت کی طرف سے کسی چیز کے ریٹ مقرر کردیئے جاتے ہیں اور مہنگا بیچنے پر قانونی معاملات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہمیں قانون کے مطابق اپنی اشیا کو فروخت کرنا ہوگاکہ وہ جائز بات جس سے قانون روکتا ہو اس سے باز رہنا شرعاً بھی واجب ہو جائے گا۔

     لہٰذا اگر پرانے اسٹاک کے بارے میں قانون خاموش ہو یا نئی قیمت سے بیچنے پر پابندی نہ ہو تو آپ پرانے اسٹاک کو نئی قیمت سے فروخت کر سکتے ہیں اگر قانونی پابندی ہو تو پھر قانون پر عمل کرنا لازم ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم