انسانی بالوں کی خرید و فروخت جائز نہیں

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں انسان کے بالوں کی خرید و فروخت کرنا  کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     انسان کے بالوں کی خرید و فروخت کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ چنانچہ علاّمہ شامی قدّس سرُّہُ السَّامی لکھتے ہیں:قَوْلُهُ (وَشَعْرِ الاِنْسَانِ) وَلَا يَجُوْزُ الْاِنْتِفَاعُ بِهٖ یعنی:انسان کے بالوں کی بیع اور ان سے نفع حاصل کرنا ناجائز ہے۔(ردالمحتارعلی در المختار،7/245)اسی طرح بحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:قَوْلُهُ (وَشَعْرِ الإنْسَانِ وَالْاِنْتِفَاعِ بِهٖ) اَيْ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالْاِنْتِفَاعُ بِهٖ۔ یعنی:انسان کے بالوں کی بیع اور ان سے نفع حاصل کرنا ناجائز ہے۔(بحرالرائق، 6/133)

     صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:انسان کے بال کی بیع درست نہیں اور انہیں کام میں لانا بھی جائز نہیں، مثلاً ان کی چوٹیاں بنا کر عورتیں استعمال کریں حرام ہے، حدیث میں اس پر لعنت فرمائی۔(بہارِ شریعت، 2/700)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم