سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2017

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدمیرے پاس آتا ہے اسے فریزر یا موٹر سائیکل لینی ہے وہ مجھ سے اس کیلئے قرض مانگتا ہے، میں زید سے کہتا ہوں کہ میں آپ کو مارکیٹ سے فریزر نقد لے کر دیتا ہوں، آپ کو جو قسطیں (Installments)اور نفع(Profit) مارکیٹ میں دینا ہے وہ مجھے دے دینا، وہ اس پر راضی ہو کر میرے ساتھ مارکیٹ جاتا ہے، میں اسے نقد میں فریزر یا موٹرسائیکل خرید کر دے دیتا ہوں، اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟ اور جو قبضہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس قبضہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا مجھے وہ موٹرسائیکل ایک دو دن کیلئے گھر لے جاکر پھر زید کو دینی ہوگی؟ یا یہ مراد ہے کہ مجھے اپنے ہی نام کی رسید بنانی چاہئے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت کے مطابق آپ کا پہلے مارکیٹ سے نقد موٹرسائیکل یا فریزر وغیرہ خود خریدنا پھر خرید کر زید کو قسطوں (Installment)پر بیچنا جائز ہے لیکن زید کو بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ خریدی گئی چیز پر پہلے قبضہ کریں پھر اسے آگے زید کو انسٹالمنٹ پر بیچیں۔ صرف پرچی کا آپ کے نام بننا قبضہ نہیں کہلائے گا اور بغیر قبضہ کئے آگے بیچنا جائز نہیں۔ درِّمختار میں ہے:لَایَصِحُّ بَیْعُ مَنْقُوْلٍ قَبْلَ قَبْضِہٖترجمہ:منقولی (Moveable)چیز کی بیع قبضے سے پہلے درست نہیں ہے۔ (درمختار،7/384)

     قبضہ کرنے کے مختلف طریقے فُقَہَاء نے بیان کئے ہیں مختلف اموال کو سامنے رکھ کر قبضہ کا تقاضا پورا کیا جاسکتا ہے۔

     پوچھی گئی صورت میں قبضہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں: (1)جس گاڑی میں مال لوڈ (Load) کرکے بھیجا جائے گا وہ گاڑی آپ خود کروائیں اس کا کرایہ بھی آپ ہی ادا کریں اور آپ زید کو پہنچ پر مال بیچیں  اس طریقہ کے مطابق جیسے ہی مال گاڑی میں لوڈ ہوگا آپ کے قبضے میں آجائے گا۔ اس کے بعد زید کو یہ چیز آپ فروخت کر دیں اور جہاں پہنچانے کا طے ہو وہاں پہنچا دیں۔ گاڑی کروانے کا جو خرچہ زائد ہوا ہے قیمت طے کرتے وقت اس خرچے کو سامنے رکھ کر قیمت طے کی جا سکتی ہے مثلاً ایک چیز بیس ہزار  روپے (20,000) کی بیچنی تھی لیکن مال پہنچ پر دینا ہو تو کرایہ کے خرچے کے پیشِ نظر یہی چیز بائیس ہزار روپے (22,000) کی بھی بیچی جا سکتی ہے۔ (2)قبضہ کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ خریداری کے بعد  مال گودام سے نکلوا کر آپ کے سامنے اس طرح رکھ دیا جائے کہ اگر آپ اس پر قبضہ کرنا چاہیں، لے جانا چاہیں تو بآسانی لے جا سکتے ہوں  اور آپ کے قبضہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہ شرعی اصطلاح  میں تَخْلِیَہ کہلاتا ہے اور یہ بھی قبضہ کے قائم مقام ہے۔ عام طور پر دکان دار کو پیسے ادا کر دئیے جائیں یا اُدھار میں خریداری ہوئی ہو تو بات چیت مکمل ہونے کے بعد دکان دار مال خریدار کے حوالے کر دیتا ہے اس حوالگی ہی کو تَخْلِیَہ کہتے ہیں۔ جب تَخْلِیَہ حاصل ہو جائے تو قبضہ ہوجاتا ہے اور آپ وہ مال آگے فروخت کر سکتے ہیں لیکن تَخْلِیَہ کے تقاضے پورے کرنا عوام کے لئے بہت مشکل ہے اس لئے پہلا طریقہ زیادہ بہتر  ہے کہ غلطی کے اِمکانات کَم ہیں۔

     بہارِ شریعت میں ہے:”بائِع نے مَبِیْع اور مُشْتَری کے درمیان تَخْلِیَہ کردیا کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانِع نہ ہو اور مَبِیْع و مُشْتَری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو تو مَبِیْع پر قبضہ ہوگیا۔“(بہارِشریعت ،2/641، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم