موبائل اکاؤنٹ

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کمپنی نے یہ اسکیم (Scheme) بنائی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے موبائل میں اکاؤنٹ (Account) بنا لیتا ہے اور پھر ریٹیلر کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں کم از کم 1000 روپیہ جمع کروا دے اور ایک دن گزر جائے تو کمپنی اس شخص کو مخصوص تعداد میں فری منٹس(Free Minutes) دے دیتی ہے، اس اکاؤنٹ کے کھلوانے کے لئے کوئی فارم وغیرہ فِل(Fill) نہیں کرنا پڑتا اور فری منٹس ملنا اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ اکاؤنٹ میں کم از کم 1000روپیہ جمع رہیں جیسے ہی ایک روپیہ اس مقدار سے کم ہوگا تو یہ سہولت ختم ہوجائے گی۔ موبائل اکاؤنٹ میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اپنے اس اکاؤنٹ کے ذریعے رقم ٹرانسفر بھی کی جاسکتی ہے اور اس صورت میں ریٹیلر(Retailer) کے ذریعے بھیجنے کی نسبت 22 فیصد کم پیسے لگیں گے اور اس سہولت کے لئے پہلے سے کوئی رقم ہونا ضروری نہیں ہے جس وقت رقم بھیجنی ہے اسی وقت وہ رقم ساتھ میں ٹیکس ڈلوا کر ٹرانسفر کر دیں تو ٹرانسفر ہو جائے گی۔ ٹیکس سے مراد ٹرانسفر کی فیس ہے اور اکاؤنٹ بنانے پربھی کسی قسم کا کوئی پیسہ نہیں لگے گا اور اس صورت میں فری منٹس وغیرہ کوئی سہولت بھی نہیں ملے گی جبکہ رقم ایک دن جمع نہ رکھیں بلکہ اسی دن کے اندر ٹرانسفر کر دیں۔اس اکاؤنٹ میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے یوٹیلٹی بل(Utility Bill) بھی جمع کروایا جا سکتا ہے اور یہ بل جمع کروانے کے لئے بھی کوئی رقم اکاؤنٹ میں ہونا ضروری نہیں اور اس جمع کروانے پر کوئی ٹیکس بھی نہیں لگے گا اور اس صورت میں فری منٹس وغیرہ کوئی سہولت بھی نہیں ملے گی جبکہ رقم ایک دن جمع نہ رکھیں بلکہ اسی دن کے اندر ٹرانسفر کر دیں۔

     شرعی رہنمائی فرمائیں کہ(1)اس طرح کا اکاؤنٹ کھلوا کر فری منٹس لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو ریٹیلر رقم جمع کرتا ہے اس کے لئے کیا حکم ہے؟(2)اگر کوئی اس ارادے سے اکاؤنٹ کھلوائے کہ میں فری منٹس نہیں لوں گا فقط رقم ٹرانسفر کرنے یا بل جمع کروانے کے لئے رقم جمع کرواؤں گا اور اسی وقت ہی رقم ٹرانسفر کردوں گا یا بل جمع کروادوں گا ایک دن گزرنے ہی نہیں پائے گا تو کیا اس طرح اکاؤنٹ کھلوانا شرعاً جائز ہے؟(3)اور اگر کسی نے اکاؤنٹ کھلوا لیا ہے کیا وہ اس اکاؤنٹ کو اس نیت سے باقی رکھ سکتا ہے کہ وہ ایک دن تک رقم جمع نہیں رہنے دے گا بلکہ فقط رقم ٹرانسفر کرنے یا بل جمع کروانے کے لئے رقم جمع کروا کر اسی وقت رقم ٹرانسفر کر دے گا یا بل جمع کروا دے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)ہزار روپے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بدلے جو فری منٹس ملتے ہیں وہ سود اور حرام ہیں، لہٰذا اتنی یا اس سے زائد رقم مذکورہ طریقے پر جمع رکھنا ناجائز و حرام ہے اور جو ریٹیلر جمع کرے گا وہ بھی گنہگار ہے کہ گناہ کے کام پر مدد کر رہا ہے۔

     تفصیل اس میں یہ ہے کہ جمع کروائے جانے والے 1000 روپے نہ امانت ہیں اور نہ تحفہ (ہبہ) بلکہ قرض ہیں۔ تحفہ اس لئے نہیں کہ تحفہ کہتے ہیں کسی چیز کا دوسرے کو بلا عوض مالک کر دینا۔ جبکہ اس صورت میں مقصود اسے مالک کرنا نہیں ہوتا، مالک کرنا مقصود ہوتا تو پیسے واپس نہ لئے جاتے۔ دُرَر میں ہے: ترجمہ:ہبہ نام ہے کسی عین کا بغیر عوض مالک کر دینا۔(درر شرح غرر، 2/217)

     اور امانت اس لئے نہیں کہ امانت والے پیسوں کو خرچ نہیں کر سکتے بلکہ بعینہ وہی رقم واپس کرنی ہوتی ہے جبکہ یہاں جمع کروائی گئی رقم کو کمپنی استعمال کرتی رہتی ہے اور واپسی میں اس کی مثل رقم دیتی ہے اور یہی قرض ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ قرض ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ قرض کا لفظ ہی استعمال کیا جائے، بلکہ اگر قرض کا لفظ استعمال نہ کیا لیکن مقصود وہی ہے جو قرض سے ہوتا ہے تو وہ قرض ہی ہوگا، کیونکہ عقود (خرید و فروخت) میں اعتبار معانی کا ہوتا ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے: ترجمہ:جب اس کو مضاربت نہیں بنا سکتے ہیں تو وہ قرض ہوجائے گا کیونکہ یہ قرض کے معنی میں ہے اور عقود میں ان کے معانی کا اعتبار ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع، 6/86،بیروت)

     اور قرض کی تعریف تنویر الابصار میں یوں بیان کی گئی ہے۔ ترجمہ:قرض وہ عقدِ مخصوص ہے جس میں مثلی مال(قدر و قیمت میں اسی  جیسا  مال) دیا جاتا ہے اس لئے کہ اس کا مثل واپس کیا جائے۔(در مختار،7/406-407،کوئٹہ)فتاویٰ رضویہ میں ہے: ”زرِامانت (امانت کے مال) میں اس کو تصرف حرام ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، 19/166،لاہور)اوراس رقم کو جمع کروانے کے بدلے میں حاصل ہونے والی رقم، فری منٹس اور ایس، ایم، ایس، سب قرض سے حاصل ہونے والے مَنافِع ہیں اور جو مَنافِع قرض سے حاصل ہوتے ہیں وہ سود ہوتے ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے: ترجمہ: رسولُاللہعَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ قرض جو نفع کھینچے تو وہ سود ہے۔(مسند الحارث، 1/500، المدینۃ المنورۃ)

     گناہ پر مدد کرنے سے قراٰنِ پاک میں منع کیا گیا ہے چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:﴿ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص ترجمۂ کنز الایمان:اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پ 6، المآئدۃ:2)

     (2)اگر کوئی اکاؤنٹ صرف رقم ٹرانسفر کرنے یا بل جمع کروانے کے لئے کھلوائے اور ایک دن رقم جمع نہ رہنے دے تو اس کے باوجود اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں کیونکہ جب یہ بات معروف ہے کہ اکاؤنٹ کھلوانے کے بعد اگر ایک دن رقم جمع رہی تو فری منٹس ملیں گے تو اب اکاؤنٹ کھلوانے والا گویا یہ اقرار و پیمان کر رہا ہے کہ اگر میں نے ایک دن رقم جمع رہنے دی تو فری منٹس لوں گا اور یہ اقرار و پیمان ہی ناجائز ہے اگرچہ بعد میں ایک دن رقم جمع نہ رہنے دے۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ملازمت بلا اطلاع چھوڑ کر چلا جانا اس وقت تنخواہ قطع کرے گا نہ تنخواہ ِواجب شدہ کو ساقط اور اس پرکسی تاوان (جرمانہ) کی شرط کر لینی مثلاً نوکری چھوڑنا چاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی یہ سب باطل و خلافِ شرعِ  مُطَہَّر ہے، پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقدِ اجارہ میں (ملازمت کا معاہدہ کرتے وقت) لگائی گئیں جیسا کہ بیانِ سوال سے ظاہر ہے کہ وقتِ ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں، یا ایسے شرائط وہاں مشہور و معلوم ہو کر اَلْمَعْرُوْفُ کَالمَشْرُوْطِ ہوں، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز و گناہ ہے، کہ شرطِ فاسد سے اجارہ فاسد ہوا، اور عقدِ فاسد حرام ہے۔ اور دونوں عاقِد (معاہدہ کرنے والے) مُبْتَلائے گناہ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ (ختم کرنا) واجب ہے، اور اس صورت میں ملازمین تنخواہِ مقرر کے مستحق نہ ہوں گے، بلکہ اجرِ مثل (یعنی عام طور پر بازار میں اس کام کی جو اجرت ہے اُتنی ہی اجرت)کے جو مُشاہرہ مُعَیَّنہ (طے شدہ  اجرت) سے زائد نہ ہوں، اجرِ مثل اگر مُسَمّٰی سے کم ہو تو اس قدر خود ہی کم پائیں گے، اگرچہ خلاف ورزی اصلاً نہ کریں۔“(فتاویٰ رضویہ، 19/506-507، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

     (3)اُوپر واضح ہوچکا کہ یہ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے اگرچہ رقم ایک دن جمع نہ رہنے دے کیونکہ اس میں ایک ناجائز معاہدہ موجود ہے اور ناجائز معاہدہ جس طرح ابتداءً کرنا جائز نہیں اسی طرح اس ناجائز معاہدے کو برقرار رکھنابھی جائز نہیں ہوتا لہٰذا جس نے اکاؤنٹ کھلوا لیا ہے اس پر لازم ہے کہ یہ اکاؤنٹ ختم کرے۔ جیسا کہ اُوپر فتاویٰ رضویہ کے جزئیہ میں امامِ اَہلِ سنّت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے ناجائز شرط کی وجہ سے جب عقد کو ناجائز قرار دیا تو بعد میں اس کے فسخ کرنے کو لازم قرار دیا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم