چیز خریدنے کے بعد اس کے ریٹ طے کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ شوال المکرم 1441ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے  میں کہ اگر میں کسی ورکشاپ یا کارخانے کے مالک سے مال اٹھاتا ہوں اور اپنے ڈسپلے سینٹر شوروم پر لے کر آتا ہوں اور اسے فروخت کردیتا ہوں۔ اور فروخت  کرنے کے بعد پھر کارخانے کے مالک  سے اس کے ریٹ طے کرتا ہوں۔ میراان سے بعد میں ریٹ طے کرنا دُرست ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ شریعتِ مُطَہَّرہ کا اُصول ہے کہ جو چیز آپ خرید رہے ہیں اس کی قیمت معلوم ہونا ضروری ہے۔ شریعت کے اُصول و قوانین کے پیچھے حکمتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہےکہ بعد میں تَنازُع نہ ہو ، ایک دوسرے کا نقصان نہ ہو ، ایک دوسرے کو ضَرَر نہ پہنچے۔ لہٰذا سوال میں بیان کیا گیا طریقہ جائز نہیں اور نہ ہی ایسے سودے کی آمدنی حلال ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم