ٹھیکیدار کام میں تاخیر کرے تو اس کے پیسے کاٹنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ شوال المکرم 1441ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم کسی کو اپنے گھر کے لئے فرنیچر بنانے کا ٹھیکہ دیتے ہیں اور وقت بھی طے ہوجاتا ہے کہ اس ٹائم تک بنا کر دے گا ، رقم بھی طے ہوجاتی ہے کہ اتنے پیسے ایڈوانس دئیے جائیں گے اور اتنے پیسے بیچ میں دینے ہوں گے۔ پھر وہ دو چار مہینے لیٹ کر دیتا ہے جو پیسے طے ہوئے کیا ان میں سے ہم پیسے کاٹ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی نہیں! یہ مالی جُرمانے کی صورت ہےاور دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مالی جُرمانہ لینا جائز نہیں ، فقہائے اَحناف کا یہی موقف ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ اِفہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اس سے کہیں کہ ہمارے پیسے واپس دے دو اور باہمی رضامندی سے سودا کینسل کردیا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم