بغیر اطلاع نوکری چھوڑنے پرایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ رمضان المبارک1441ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی ادارے یا کمپنی میں یہ شرط ہوکہ نوکری چھوڑنے کی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ ایک ماہ پہلے بتانا ہوگا ورنہ آپ کی ایک ماہ کی سیلری کاٹ لی جائے گی تو  اس کا کیا حکم ہے اورایسی شرط پر اجارہ کرناکیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     کسی ادارے یا کمپنی والوں کانوکری چھوڑنے کے حوالے سے اجیروں پر یہ شرط لگانا کہ “نوکری چھوڑنے کی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ ایک ماہ پہلے بتانا ہوگا ورنہ آپ کی ایک ماہ کی سیلری کاٹ لی جائے گی “ناجائز و حرام کام ہے۔ بغیر بتائے چھوڑنے کی صورت میں ایک ماہ جو کام کیا اس کی اجرت کاٹ لینا بھی جائزنہیں ہے۔ نیز معاہدے میں ایسی شرط لگانا ہی درست نہیں۔

     حدیث شریف میں ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ما بال رجال یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللہ ما کان من شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل وان کان مائۃ شرط قضاء اللہ احق وشرط اللہ اوثق “ یعنی لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتابُ اللہ میں نہیں ہیں اور جو شرط کتابُ اللہ کی رُو سے جائز نہ ہووہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں ، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ زیادہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی  شرط بہت مضبوط ہے۔

(بخاری ، 2 / 36 ، حدیث : 2168)

     در مختار میں ہے : تفسد الاجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد “یعنی ایسی شرائط اجارے کو فاسد کردیتی ہیں جو عقد کے تقاضے کے خلاف ہوں۔

(در مختار مع رد المحتار ، 9 / 77)

     اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن “فتاویٰ رضویہ “ میں اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  لکھتے ہیں : “تسلیم نفس کامل کر کے اور بات میں با وصف قبول و اقرار خلاف ورزی غایت یہ کہ جرم ہو ، جرم کی تعزیرِمالی جائز نہیں ہے کہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام ، مع ھذا حقوق العباد میں مطلقاً اور حقوق اللہ میں جرم کر چکنے کے بعد تعزیر کا اختیار صورِ معدودہ کے سوا قاضیٔ شرع کو ہے ، نہ عام لوگوں کو ، اور امر ناجائز رائج ہوجانے سے جائز نہیں ہوسکتا ، یونہی ملازمت بلااطلاع چھوڑ کر چلا جانااس وقت سے تنخواہ قطع کرے گا نہ کہ تنخواہ واجب شدہ کو ساقط ، اور اس پر کسی تاوان کی شرط کرلینی ، مثلاً نوکری چھوڑ نا چاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے ، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی ، یہ سب باطل و خلاف شرعِ مطہر ہے۔ پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقدِ اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیان سوال سے ظاہر  ہے کہ وقتِ ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں یا ایسے شرائط وہاں مشہور و معلوم ہو کر المعروف کالمشروط ہوں ، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز و گناہ ہے کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا ، اور عقدِ فاسد حرام ہے ، اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ، اور اس صورت میں ملازمین تنخواہ مقرر کے مستحق نہ ہوں گےبلکہ اجر مثل کے جو مشاہرہ معینہ سے زائد نہ ہو ، اجر مثل اگر مسمی سے کم ہے تو اس قدر خود ہی کم پائیں گے ، اگرچہ خلاف ورزی اصلاً نہ کریں۔ “

(فتاویٰ رضویہ ، 19/506 ، 507)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم