Sailab Mein Beh Kar Aane Wali Ashya Ka Hukum

سیلاب میں بہہ کر آنے والی چیزوں کا حکم

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

فتوی نمبر: WAT-1257

تاریخ اجراء:       18ربیع الثانی 1444 ھ/14نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر سیلاب میں  بہہ کر کوئی جانور یا چار پائی وغیرہ  ہم تک پہنچے ، تو ہم اسے لے کر اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورتِ مسئولہ میں بہہ کر آنے والے جانور ، چارپائی یا کسی دوسرے سامان وغیرہ کا حکم مالِ لقطہ کا ہو گا اور لقطہ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اس کی تشہیر کرے، اگر مالک مل جائے ،تو اسے واپس کرے، اگر مالک نہ ملے اور ظنِ غالب ہوجائے کہ مالک اب اسے تلاش نہ کرتا ہوگا، تواسے صدقہ کر دے۔ نیزواضح رہےکہ اگر اس چیز کو اس نیت سے لے لیا کہ  خود رکھ لے گا،  مالک تک نہیں پہنچائے گا، تو یہ حرام و گناہ ہے اور یہ غاصب قرار پائے گا۔

   اس تفصیل کے مطابق صورتِ مسئولہ  میں یہ حکم ہو گا کہ ممکنہ صورت میں اس کے مالک کو تلاش کرے،بالخصوص جس جانب سے پانی آرہا تھا، اس طرف کے علاقے کے لوگوں میں مالک کی تلاش کی جائے  اور عام طور پر جس کا جانور یا کوئی چیز گم ہو، تو وہ بھی  اس کی تلاش کرتا ہے، تو اس طرح اصل مالک کو تلاش کر کےاس تک پہنچائے اور اگر وہ نہ رہا ہو، تو اس کے ورثاء تک پہنچائے اور اگر تشہیر کرنے اور مالک کو ڈھونڈنے کی کوشش کے باوجود مالک کا کسی طرح پتا نہ چل سکا اور یوں ہی مالک کی تلاش و انتظار میں اتنی مدت گزر جائے کہ ظن غالب ہو جائے کہ اب وہ اس کی تلاش نہیں کر رہا ہو گا،تواسےمالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور اسے کسی بھی نیکی کے کام میں بطورِ صدقہ دے سکتے ہیں اور اگر خود شرعی فقیر ہو، تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے۔

   لیکن اگر صدقہ کرنے کے بعد  اصل مالک آجائے اور وہ اسے کو صدقہ کرنے پر راضی نہ ہو اور اس  کا مطالبہ کرے،تو وہ  چیز یا اس کی قیمت اسےلوٹانی ہو گی۔

   نوٹ:اس موقع پرتشہیرکے لیے عمومی ذرائع مثلاالیکڑانک میڈیا۔پرنٹ میڈیاوغیرہ کواستعمال کیاجائے تاکہ اصل مالک تک آوازپہنچ سکے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم