Na Baligh Bache Ne Zameen Par Pare Howe Paise Utha Liye To Kya Hukum Hai?

نابالغ بچے نے زمین پر پڑے ہوئے روپے اٹھا لیے، تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2866

تاریخ اجراء:19شوال المکرم1444ھ/10مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نابالغ  سمجھدار بچے کو راستے سے پیسے ملے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ اس کے متعلق کیا حکم ِشرعی ہوگا؟کیا اس پر بھی لقطہ کے احکام ہوں گے؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں !اس پر بھی لقطہ کے احکام ہوں  گے، کیونکہ شرعی نقطہ نظر سے  نابالغ بچے کے  لقطہ اٹھانے کا حکم ایسا ہی ہے، جیسے بالغ کے لقطہ اٹھانے کا حکم ہوتا ہے۔  البتہ اس میں تفصیل کچھ یوں ہے کہ لقطہ کے مال کی حفاظت اور اس کی تشہیر  کرنا،نابالغ کے ولی یا سرپرست پرلازم ہوگی اور تشہیر کےبعد لقطہ کے مال کو صدقہ کردیا،بعد میں لقطہ  کا  مالک مل گیا اور وہ صدقے پر راضی نہ ہوا، تو اب ولی یا سرپرست اپنے مال سے لقطہ کی قیمت   مالک کو دیں گے، نابالغ کے مال سے وہ رقم ادا نہیں کی جائے گی۔نیز تشہیر کے شرعی تقاضے پورے کرنے کے باوجود مالک نہ ملے، تو بچہ اگر خود شرعی فقیر ہو، تو ولی یا سرپرست  لقطہ  کو بچے پر خرچ کر سکتا ہے۔

   لقطہ اٹھانے والے کے لیے بالغ ہوناشرط نہیں ہے، جیسا کہ البحر الرائق میں ہے:”فاما الملتقط فلم ار من بین شرائطہ و لایشترط بلوغہ“ترجمہ:ملتقِط یعنی میں نےکسی فقیہ کو لقطہ اٹھانے والے  کے متعلق شرائط بیان  کر تے ہوئے نہیں دیکھا اور ملتقِط کا بالغ ہونا،شرط نہیں۔(البحر الرائق، جلد5، صفحہ 162، دار الکتاب الاسلامی)

   لقطہ اٹھانے میں بچہ ، بالغ کی طرح ہے، لیکن لقطہ کی تشہیر کرنا، بچے کے ولی پر لازم ہوگی،جیسا کہ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر میں ہے:”(التقاطه كالتقاط البالغ) اقول ای فی صحته لا فی وجوب التعريف، وفائدة صحته ضمانہ لو لم يشهد قال فی القنية: وجد الصبی لقطة ولم يشهد يضمن كالبالغ  وبه سقط ما قيل: ظاهره وجوب التعريف عليه وهو غير صحيح لعدم تكليفه ومقتضى القواعد وجوب التعريف على وليه “ترجمہ:بچے کا لقط اٹھانا، بالغ کے لقطہ اٹھانے کی طرح ہے ۔میں کہتا ہوں کہ (یہ حکم )لقطہ کے صحیح ہونے میں  ہے ، تشہیر کے واجب ہونے میں(یہ حکم) نہیں۔نابالغ کےلقطہ اٹھانے کو صحیح قراردینے سے فائدہ یہ ہوگا کہ اگرگواہ نہ بنائے، تو ضمان لازم ہوگا۔قنیہ میں فرمایا کہ بچہ جب لقطہ کو پائے اور گواہ نہ بنائے، تو لقطہ کے ضائع  ہونے کی صورت میں ایسے ہی ضمان ہوگا، جیسا کہ بالغ پر ہوتا ہے۔اس وضاحت سے یہ اعتراض ختم ہو جائے گا  کہ عبارت کا ظاہر یہ ہے کہ بچے پر تشہیر کرنا واجب ہے ،حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ بچہ مکلف نہیں ہے ۔ قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ بچے کے ولی پر تشہیر کرنا لازم ہو۔(غمزعیون البصائر فی شرح الاشباہ و النظائر، جلد3، صفحہ 319، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   البحر الرائق میں ہے:” فی القنية وجد الصبی لقطة ولم يشهد يضمن كالبالغ‘‘ترجمہ:قنیہ میں ہے کہ  بچےکو لقطہ ملا اور اس نےگواہ نہ بنائے، تو اس صورت میں بالغ کی طرح تاوان دے گا۔ (البحر الرائق، جلد5، صفحہ 163 ، دار الکتاب الاسلامی)

   البحرالرائق میں مزید فرمایا:’’قدمنا ان الملتقط اذا كان صبيا عرفها وليه زاد فی القنية او وصيه ثم له ان يتصدق بها ثم رایت بعد ذلك فی شرح منظومة ابن وهبان للمصنف انه قال ينبغی على قول اصحابنا اذا تصدق بها الاب او الوصی ثم ظهر صاحب اللقطة وضمنهما ان يكون الضمان فی مالهما دون الصبی  “ترجمہ: ہم نے پہلے یہ بیان کیا ہے کہ لقطہ اٹھانے والا اگر بچہ ہو، تو لقطہ کی تشہیر ولی پر لازم ہے اور قنیہ میں یہ زیادہ ہے کہ  یا بچے کے وصی پر تشہیر کرنا لازم ہے۔۔۔ پھرمیں نے مصنف کی شرح منظومہ ابن وھبان  میں دیکھا کہ  مصنف نے فرمایا  ہمارے اصحاب کے قول پریہ کہنامناسب ہے کہ جب والد یا  وصی صدقہ کر دے، اس کے بعد  لقطہ کا مالک آجائے اور  ان دونوں سے ضمان طلب کرے، تو اس صورت میں ضمان والد یا وصی کے مال سے ہوگا، بچے کے مال سے نہیں دیا جائےگا۔(البحر الرائق، جلد5، صفحہ 164، دار الکتاب الاسلامی)

   بچے کے لقطہ اٹھانے کے احکام بیان کرتے ہوئے درِ مختار مع رد المحتار میں ہے:” فی الوهبانية: الصبی كالبالغ فيضمن ان لم يشهد ثم لابيه او وصيه التصدق (ای  بعد الاشهاد والتعريف كما فی القنية)۔۔۔۔ وضمانها فی مالهما لا مال الصغير “ترجمہ:وہبانیہ میں ہے کہ بچہ بالغ کی طرح ہے، اگر لقطہ اٹھانے کے وقت گواہ نہیں بنائے، تو ضمان لازم ہوگا،پھربچے  کے والد یاوصی تشہیر اور گواہ بنانے کے بعد تصدق کریں گے اور لقطہ کا ضمان ، وصی اور والد کے مال سے لازم ہوگا، بچے کے مال سے لازم نہیں ہوگا۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد6، صفحہ429، مطبوعہ کوئٹہ، مزیدا من رد المحتار بین القوسین)

   بچے کو لقطہ کی چیز ملی، تو اس کے متعلق صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ ”بالترتیب دو مسائل  بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”مسئلہ8:بچہ نے پڑا مال اُٹھایا اور گواہ نہ بنایا، تو ضائع ہونے کی صورت ميں اسے بھی تاوان دینا پڑےگا۔مسئلہ9:بچہ کو کوئی پڑی ہوئی چیز ملی اور اُٹھا لایا، تو اُس کا ولی یا وصی تشہیر کرے اور مالک کا پتا نہ ملا اور وہ بچہ خود فقیر ہے ،تو ولی یا وصی خود اُس بچہ پر تصدق کرسکتا ہے اور بعد ميں مالک آیا اور تصدق کو اُس نے جائزنہ کیا ،تو ولی یا وصی کو ضمان دینا ہوگا۔(بھار شریعت، جلد2، حصہ 10، صفحہ 475، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم