Giri Pari Milne Wali Raqam Ka Hukum

گِری پڑی ملنے والی رقم کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

تاریخ اجراء:     ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بھائی کو تقریباً آٹھ مہینے پہلے کچھ رقم ملی تھی ، اُنہوں نے اُسی وقت خوب اعلان کروایا ، تشہیر کی ، مگر آج تک اُس رقم کا اصل مالک نہیں ملا۔ عرض یہ ہے کہ کیا اُس رقم کو مسجد یا مدرسے میں خرچ کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گری پڑی رقم ملی اور اُسے اُس کے مالک تک پہنچانے کے لیے حتی المقدور ذرائع استعمال کیے ، مگر مکمل تشہیر اور کوشش کے باوجود مالک تک رسائی نہیں ہوئی اور اب اُس کا ملنا ناممکن سا ہے ، تو اُس رقم کو مسجد ، سُنّی مدرسے یا کسی فقیرِ شرعی کو صدقہ کیا جا سکتا ہے اور اگر اُٹھانے والا خود فقیرِ شرعی ہے تو اپنے استعمال میں بھی لا سکتا ہے۔

   یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ صدقہ کرنے کی صورت میں وہ بَرِی تو ہو جائیں گے ، لیکن اگر پھر کبھی اصل مالک مل جاتا ہے اور وہ اُس رقم کو صدقہ کر دینے سے راضی نہیں ہوتا تو مالک کو رقم واپس کرنا ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم