Warranty Ki Shart Par Cheez Bechne Aur Claim Karne Ki Shari Haisiyat

وارنٹی کی شرط پر چیز بیچنے اور کلیم کرنے کی شرعی حیثیت

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-109

تاریخ اجراء:26ربیع الثانی1445ھ/11نومبر2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خرید و فروخت کرتے وقت وارنٹی (Warranty) کی شرط لگانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

   اگر وارنٹی(Warranty)  کلیم(Claim) کرنے سے انکار کر دیا تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خرید و فروخت کرتے وقت وارنٹی(Warranty)  کی شرط لگانا معروف(Understood) ہونے کی بنا پر شرعاً جائز ہے۔  جب کسی پروڈکٹ (Product) کی خریدوفروخت کرتے وقت وارنٹی(Warranty)  کی شرط لگا دی اور کسٹمر وارنٹی(Warranty) میں بیان کی جانے والی شرائط کے مطابق مدت کے اندر وارنٹی(Warranty)  کلیم(Claim)کرے تو بیچنے والے پر وارنٹی (Warranty) کی شرائط کے ساتھ اس کلیم (Claim) کو قبول کرنا شرعاً  لازم ہوگا۔

   خرید و فروخت میں کسی شرط پر عرف جاری ہو جائے تو بیع فاسد نہیں ہو گی جیسا کہ در مختار میں ہے :”اما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، او ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد“یعنی: بیع میں اگر کسی شرط پر عرف جاری ہو جائے جیسے جوتے میں تسمہ لگانے کی شرط کے ساتھ بیع یا شریعت میں اس شرط کا جواز آیا ہو تو بیع فاسد نہیں ہو گی۔(درمختار مع ردالمحتار،جلد 5،صفحہ 85،مطبوعہ کوئٹہ)

   شرطِ متعارف کے ساتھ کی گئی بیع میں شرط کی پابندی بائع پر لازم ہے جیسا کہ مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:”البيع بشرط متعارف يعنی المرعی فی عرف البلدۃ صحيح والشرط معتبر۔۔۔  ويلزم على البائع الوفاء بهذه الشروط“یعنی: شرطِ متعارف یعنی ایسی شرط جس کی  اس شہر کے عرف میں رعایت کی جاتی ہو اس کے ساتھ بیع درست ہے، اور شرط معتبر ہے ، نیز بائع پر اس شرط کو پورا کرنا لازم ہے۔(المجلۃ الاحکام العدلیہ ،صفحہ39، مطبوعہ کراچی)

   جس شرط سے بیع فاسد ہوتی ہے، اس پر عرف نہ ہونا شرط ہے ۔ جیساکہ امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’اور بیع میں شرط افساد با شرط عدمِ تعارفِ شرط ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 578،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   کسی چیز کی خرید و فروخت میں گارنٹی کی شرط سے متعلق صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں تحریر فرماتے ہیں:” وہ شرط ایسی ہے جس پر مسلمانوں کا عام طور پرعمل درآمد ہے جیسے آج کل گھڑیوں میں گارنٹی سا ل دوسال کی ہوا کرتی ہے کہ اس مدت میں خراب ہوگی تو درستی کا ذمہ دار بائع ہے ایسی شرط بھی جائز ہے۔“ (بہار شریعت، جلد2،صفحہ701، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم