Udhar Saman mein Dair Hone Par Zyada Paise Lene Ka Hukum

ادھار خریدو فروخت میں خریدار مدت سے پیسے لیٹ کرے تو زیادہ پیسے لینے کا حکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3108

تاریخ اجراء:10ربیع الاوّل1446ھ/13ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں ایک مشین  دس لاکھ  کی خریدتا ہوں ،اور ایک سال کے ادھارپر 15 لاکھ  کی بیچ دیتا ہوں ،تو اگر خریدار  ایک سال سے زیادہ   ،پیسے لیٹ کرے تو میں زیادہ پیسے لے سکتا ہوں؟ رہنمائی فرما دیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت ِ مسئولہ میں متعین مدت سے زیادہ پیسے لیٹ ہونے پر اضافی رقم لینا جائز نہیں کیونکہ یہ تعزیربالمال(مالی سزا) ہے اورتعزیربالمال منسوخ ہے اورمنسوخ پرعمل کرناناجائزوحرام ہے،البتہ کسٹمر پر لازم ہے کہ بلا وجہ شرعی رقم کی ادائیگی میں تاخیر نہ کرے ،اگر بیچنے والے کی رضاکے بغیر، بلااجازت شرعی تاخیرکرے گاتوگنہگار ہوگالیکن اس وجہ سے اس سے جرمانہ لینا ، کسی صورت میں  جائز نہیں ۔

    تاخیر پر اضافی پیسے لینے سے متعلق پارہ 3، سورۃ البقرۃکی آیت نمبر 278میں موجود اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا ﴾کے تحت حجۃ الاسلام امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی علیہ رحمۃ  اللہ القوی لکھتے ہیں: ”حظر أن یؤخذ  للأجل عوض ۔۔۔ولا خلاف انہ لو کان علیہ الف درھم حالۃ فقال لہ اجلنی و ازیدک فیھا مائۃ درھم لا یجوز لان المائۃ عوض من الاجل “  ترجمہ : مدت کے بدلے میں عوض لینے کی ممانعت ہے ۔۔۔اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی پر ایک ہزار دراہم دَین ہوں اور وہ دائن سے کہے کہ مجھے اور مہلت دے دو  تو میں سو درہم زیادہ دوں گا، یہ جائز نہیں کیونکہ یہاں  سو درہم مدت کے عوض میں ہیں ۔(اورمدت کا عوض لینا جائز نہیں ہے۔)(احکام القرآن للجصاص، ج 1،ص 566،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

    شمس الائمہ محمد بن احمدالسرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”المبسوط“ میں لکھتے ہیں :”مقابلة الأ جل بالدراهم ربا، ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجله لم يجز “ترجمہ :مدت کے مقابلے میں (قیمت کے علاوہ)دراہم لینا سود ہے، کیا تو نہیں دیکھتا کہ فوری دین میں اگر مدیون نے مال میں زیادتی کردی تاکہ دائن اسے مزید مدت دے تویہ جائز نہیں ہے۔(المبسوط للسرخسی،کتاب البیوع،ج 13،ص 126،دار المعرفۃ،بیروت)

    مالی جرمانہ جائز نہیں،چنانچہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام، ثم نسخ‘‘ ترجمہ : مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔(بحر الرائق،ج 5،ص 44، دار الكتاب الإسلامي)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔‘‘      (فتاوی رضویہ،ج5،ص111، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم