Udhar Mein Order Par Zewar Banana Kaisa Hai ?

ادھار میں آرڈر پر زیور بنانا کیسا ؟

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق:      مفتی  فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: Mad-1673-a

تاریخ اجراء:       11شعبان المعظم 1437 ھ/19   مئی   2016 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے پاس جب گاہک زیور بنوانے کے لیے آتے ہیں، تو وہ کوئی چیز بنوانے کا آرڈر دیتے ہیں ،فلاں ڈیزائن کی فلاں چیز بنا دیں یعنی نمونہ وغیرہ دیکھ کر مکمل طور پر نوع و صفت وغیرہ کا بیان ہو جاتا ہے ۔ کچھ رقم وہ اسی وقت دے جاتے ہیں اور کچھ رقم وہ ادھار کرلیتے ہیں یعنی بعد میں چیزلیتے وقت دینی ہوتی ہے۔ کیا یہ طریقہ کار درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آرڈر پر اس طرح زیور تیار کروانا کہ کچھ رقم ایڈوانس دے دی جائے اور کچھ زیور ملنے کے وقت دینا طے پائے یہ شرعی طور پر جائز ہے ۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ زیوریا اس کے علاوہ کوئی اور چیز کاریگر سے تیار کروانا شرعی طور پر بیع استصناع کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ بنوائی جانے والی چیز کی جنس ، نوع اور وصف وغیرہ یوں  بیان کر دیا جائے کہ جہالت باقی نہ رہے۔نیز یہ کہ اس چیز کے بنوانے میں لوگوں کا تعامل ہو،لہٰذا جس چیز کے بنوانے کا تعامل نہ ہو، اس کی بیع استصنا ع جائز نہیں ہوتی اور چونکہ سونے کے زیورات میں بھی یہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، اس لیے اس کی بیع استصناع بھی جائز ہے ۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا“ترجمہ:بیع استصناع استحسانا  ہر اس چیز میں جائز ہے جس میں تعامل جاری ہو، جیسے ٹوپی، موزے اور پیتل و تانبے سے بنائے جانے والے برتن اور اس طرح کی دیگر چیزیں ایسا ہی محیط میں ہے ۔ پھر تعامل والی چیزوں میں بھی استصناع اس وقت جائز ہے جبکہ اس کا وصف یوں بیان کر دیا جائے جس سے چیز کی معرفت و پہچان حاصل ہو جائے ۔ جس چیز میں تعامل نہیں اس میں استصناع بھی جائز نہیں جس طرح کپڑوں میں استصناع کہ کپڑا بُننے والے کو کہا جائے تم اپنی طرف سے سوت لگا کرکپڑا بُن دو ،تو یہ جائز نہیں، یونہی الجامع الصغیر میں ہے ۔ اور استصناع کی صورت یہ ہے کہ کو ئی شخص موزہ بنانے والے کو اپنا پاؤں دکھاتے ہوئے کہے کہ تم اپنے پاس موجود چمڑے سے میرے اس پاؤں کے مطابق موزہ بنا دو یا سنار کو کہے اپنی چاندی سے مجھے ایک انگوٹھی بنا دو اور اس کا وزن و صفت وغیرہ بیان کر دے۔(فتاوی ھندیہ، جلد3، صفحہ207، دار الفکر، بیروت)

   کفایہ میں بیع استصناع کے متعلق لکھا ہے: ”و صورتہ ان یجیئ انسان الی اخر فیقول اخرز لی خفا صفتہ کذا و قدر کذا بکذا درھما او یقول للصائغ اصنع لی خاتما من فضتک و بین وزنہ و صفتہ و یسلم الثمن کلہ او بعضہ او  لا یسلم“ ترجمہ: اور بیع استصناع کی صورت یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے پاس آئے اور اسے کہے میرے لیے اتنے درہم  کے بدلے ایک موزہ سی دو جس کی صفت اور مقدار یہ یہ ہے یا سنار کو کہے کہ میرے لیے اپنی چاندی سے ایک انگوٹھی بنا دو اور پھر اسے انگوٹھی کا وزن اور صفت وغیرہ بیان کر دےاور ثمن چاہے پورا دے دے ، چاہے کچھ ادا کرے اور چاہے کچھ بھی ادا نہ کرے۔     (کفایہ مع فتح القدیر، جلد7، صفحہ30، مطبوعہ کوئٹہ)

   ان جزئیات میں چاندی کی بیع استصناع  کا جواز بیان کیا گیا ہے اور اہل علم پر مخفی نہیں کہ سونے چاندی کے اَحکام ایک سے ہیں، لہٰذا چاندی کی طرح سونے کے زیور کی بیع استصناع بھی جائز ہی ہوگی ۔ علاوہ ازیں مبسوط سرخسی کے درج ذیل جزئیے میں سونے کی بیع استصناع کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ امام سرخسی لکھتے ہیں:”ولو استأجر صائغا يصوغ له طوق ذهب بقدر معلوم، وقال: زد في هذا الذهب عشرة مثاقيل، فهو جائز،لأنه استقرض منه تلك الزيادة، وأمره أن يخلطه بملكه فيصير قابضا كذلك، ثم استأجره في إقامة عمل معلوم في ذهب له، ولأن هذا معتاد فقد يقول الصائغ لمن يستعمله: إن ذهبك لا يكفي لمن تطلبه، فيأمره أن يزيد من عنده، وإذا كان أصل الاستصناع يجوز فيما فيه التعامل فكذلك الزيادة“ ترجمہ: اگر کسی نے سنار سےاجارہ کیا کہ سنار اسے سونے کا ایک ہار بنا دے مخصوص مقدار میں اور سنار کو کہا کہ اس میں دس مثقال سونا مزید(اپنی طرف سے)اضافہ کر دو،تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ(یوں ہوگیا کہ ) اس شخص نے سنار سے اضافی سونا قرض لیا اور اسے کہا کہ اس اضافے کو میر ی ملکیت (والے سونے ) میں خلط کر دے، لہٰذا اس طرح کرنے سے وہ اضافی سونے پر قابض ہو جائے گا ،پھر اپنے سونے میں مخصوص کام کرنے پر سنار سے اجارہ کیا ۔ نیز اس کی وجہِ جواز یہ بھی ہے کہ اس طرح کا  معاملہ معتاد ہے کہ  اکثر سنار سونا استعمال کرنے والے کو کہہ دیتا ہے کہ جو چیز تم بنوانا چاہتے ہو تمہارا سونااس کے لیے کافی نہیں اور پھر گاہک اس سے کہتا ہے کہ تم اپنی طرف سے اضافی سونا ڈال دو اورجس چیز میں تعامل ہو، اس میں  جب اصل استصناع جائز ہے ،تو زیادتی کے اندر بھی جائز ہوگی۔(مبسوط، جلد14، صفحہ49، دار المعرفہ ، بیروت)

   بیع استصناع میں  عقد کے وقت ہی ساری رقم دینا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اختیارہوتا ہے، چاہے ساری ایڈوانس ادا کر دیں، چاہے کچھ بھی ایڈوانس ادا نہ کریں اور چاہے تو کچھ ایڈوانس دے دیں اور کچھ بعد میں ،یہ سب صورتیں جائز ہیں،جیسا کہ اوپر کفایہ کے جزئیے میں بھی بیان ہوا نیز مجلہ اور اس کی شرح درر الحکام میں ہے :”لا يلزم في الاستصناع دفع الثمن حالا أي وقت العقد.……فكما يكون الاستصناع صحيحا بالتعجيل يكون صحيحا بتأجيل بعض الثمن، أو كله“ ترجمہ: بیع استصناع میں فی الحال یعنی وقت عقد ثمن دینا لازم نہیں، لہٰذا جس طرح معجلاً ثمن ادا کرنے سے استصناع صحیح ہو جاتی ہے اسی طرح بعض یا کل ثمن کو مؤجل کر لینے سے بھی استصناع صحیح ہو جاتی ہے۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ، جلد1، صفحہ424، دار الجبل)

   نوٹ: بیع استصناع میں ایک ماہ سے زیادہ مدت طے کرنے کی صورت میں  امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بیع سلم بن جاتی ہے اور اس  میں بیع سلم کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، لیکن صاحبین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کے مطابق وہ بیع استصناع ہی رہتی ہے ۔اور ہمارےدور کے جیدعلمائے کرام نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے، جیسا کہ شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف نے اپنے چھٹے فقہی سیمینار میں دفع حرج شدید کے پیش نظر صاحبین کے قول پر فتوی دیا ۔ یونہی مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور نے بھی فلیٹوں کی بیع استصناع میں حاجت شرعیہ و تعامل کے پیشِ نظر  صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے ، لہٰذا صاحبین کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق اگر سونے کے زیورات کی تیاری کے لیے ایک ماہ یا زیادہ کی مدت طے کر لی جائے ،تب بھی وہ بیع استصناع ہی رہے گی اور یہ معاملہ جائز ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم