مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7280
تاریخ اجراء: 28صفر المظفر1445ھ/15ستمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین
اس بارے میں کہ اگر کسی بڑے ٹھیکیدار کو چند ماہ یا مخصوص مدت کے بعد
سریا چاہئے ہوتا ہے،تو وہ اسٹیل مِل سے پہلے ہی خریداری
کا معاہدہ کر لیتا ہے،تاکہ اسٹیل مِل اس وقت تک اتنا سریا تیار کر کے دیدےاور
آئے روز مٹیریل کی جو قیمتیں بڑھ رہی ہیں،اس
سے بھی بچت ہو جائے۔ٹھیکیدار اور اسٹیل ملز کے مابین
جو معاہدہ ہوتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سریے
کی کوالٹی، موٹائی ،وزن ،
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تجارت انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا
شعبہ ہے اور اسلام اپنی جامعیت و کاملیت کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری
رہنمائی فرماتا ہے۔تجارت کے متعلق بھی اسلامی اصول مقرر
ہیں ، لہٰذا کاروباریا خریدوفروخت سے پہلے ہی مستند
علماء و مفتیانِ کرام سے رہنمائی لے لی جائے،تو شرعی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔اللہ پاک اہلِ علم سے رہنمائی لینے کے بارے
میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ فَسْـََٔلُوۡۤا
اَہۡلَ الذِّکْرِ اِنۡ کُنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ﴾ ترجمہ:تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔(پ14،سورہ
النحل،آیت43)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی اصولوں کے خلاف معاہدے پرتنبیہ
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”ما بال رجال یشترطون شروطاً
لیست فی کتاب اللہ، ما کان من شرط لیس فی کتاب اللہ فھو
باطل، وان کان مائة شرط، فقضاءاللہ احق وشرط اللہ اوثق“ ترجمہ : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ
ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں
ہیں، جو شرط کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہے، اگرچہ سو شرطیں
ہوں، اللہ عزوجل کا فیصلہ حق ہے، اور اللہ عزوجل کی جائز کردہ شرط
قوی ہے ۔(صحیح
البخاری، ج1، ص 290،مطبوعہ کراچی)
اور جہاں تک سوال کا تعلق ہے،تو یاد رہے کہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق اسٹیل مِل اور
ٹھیکیدار کا معاہدہ کرنا ،ناجائز و حرام اور گناہ ہے اور اس کی
وجہ سے یہ معاہدہ/ ایگریمنٹ بھی فاسد ہو جائے گا،جسے ختم
کرنا عاقدین یعنی
ایگریمنٹ کرنے والوں پر لازم ہو گا۔
تفصیل اس مسئلہ کی کچھ اس طرح ہے کہ
اسٹیل مل اور ٹھیکیدار کے درمیان ہونے والے معاہدے
کی شرعی حیثیت عقدِ استصناع کی ہے۔استصناع کا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ آرڈر پر کوئی چیز تیار کروائی
جائے اور یہاں بھی ٹھیکیدار کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسٹیل مِل اتنی مدت تک سریا تیار کر کے
دیدے،لہذا اس اعتبار سے یہ عقدِ استصناع ہوا۔ پھر استصناع
باقاعدہ خریدوفروخت ہےاور خریدو
فروخت درست ہونے کے بنیادی اصولوں میں چیز کی
ایک قیمت طے ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر سودا ہو
جائے،لیکن قیمت میں ایسی جہالت، اِبہام باقی
ہو جو بعد میں جھگڑے کا باعث بنے،تو اس کی وجہ سے
ایگریمنٹ فاسد اور
ناجائز ہوجاتا ہے،ایسا ایگریمنٹ کرنے والے
گنہگارہوتے ہیں،توبہ کے ساتھ ساتھ ان پر اس معاہدے کو ختم کرنا بھی واجب ہوتا ہے۔
اب پوچھی گئی صورت میں دیکھا جائے،تواگرچہ وقتی
طور پر سریے کی موجودہ قیمت دیدی جاتی
ہے،لیکن جب یہ طے کیا جاتا ہے کہ ’’ قیمت کا اصل
فیصلہ
استصناع کے حوالے سے فتاوی ہندیہ میں ہے:”الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه، كالقلنسوة والخف والاواني المتخذة
من الصفر والنحاس وما اشبه ذلك استحسانا،كذا في المحيط،ثم ان جاز الاستصناع فيما
للناس فيه تعامل اذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف،اما فيما لا تعامل فيه۔۔
لم يجز،كذا في الجامع الصغير وصورته:ان يقول للخفاف:اصنع لي خفا من اديمك يوافق
رجلي ويريه رجله بكذا او يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا“ترجمہ:بیع استصناع استحساناًہر اس چیز
میں جائز ہے جس میں تعامل جاری ہو ،جیسے ٹوپی، موزے
اور پیتل و تانبے سے بنائے جانے والے برتن اور اس طرح کی دیگر
چیزیں،ایسا ہی محیط میں ہے ۔ پھر تعامل
والی چیزوں میں بھی استصناع اس وقت جائز ہے جب اس کا وصف یوں بیان کر دیا
جائے جس سے چیز کی معرفت و پہچان حاصل ہو جائے ۔بہر حال جس چیز میں تعامل نہیں اس
میں استصناع بھی جائز نہیں،ایسے ہی جامع صغیر
میں ہے اور استصناع کی صورت یہ ہے کہ کو
ئی شخص موزہ بنانے والے کو اپنا پاؤں دکھاتے ہوئے کہے کہ تم اپنے پاس موجود
چمڑے سے میرے اس پاؤں کے مطابق موزہ بنا دو یا سنار کو کہے اپنی
چاندی سے مجھے ایک انگوٹھی بنا دو اور اس کا وزن و صفت
وغیرہ بیان کر دے۔(فتاوی
ہندیہ، ج3، ص207،مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)
صحیح قول کے مطابق استصناع باقاعدہ
خریدوفروخت ہے۔تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’صح الاستصناع بیعا،لا عدۃ علی الصحیح‘‘ترجمہ:صحیح قول کے مطابق استصناع بطورِ
بیع درست ہے،بطورِ وعدہ
نہیں۔ (تنویر
الابصار مع در مختار،ج7،ص502،مطبوعہ کوئٹہ) اور خریدوفروخت میں ثمن کی جہالت بیع جائز ہونے کے
مانع ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:’’جهالة المبيع او الثمن مانعۃجواز البيع اذا كان يتعذر معها التسليم ‘‘ترجمہ:مبیع یا ثمن کی جہالت
بیع جائز ہونے کے مانع ہے،جبکہ اس کی وجہ سے سپرد کرنا متعذر
ہو۔(فتاوی ہندیہ،ج3،ص122،مطبوعہ دار الفکر)
اورصدرُ الشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بیع کے صحیح ہونے کی شرائط
میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:’’مبیع وثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں
کہ نزاع(جھگڑا)پیدا نہ ہوسکے، اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو ،تو
بیع صحیح نہیں، مثلاً :اس ریوڑ
میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو
واجبی دام پربیچا یا اس قیمت پر بیچا جو فلاں شخص
بتائے۔‘‘(بھارِشریعت،ج2،ص
617،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
خاص بیع استصناع میں بھی ایک
قیمت طے کرنا ضروری ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ کسی سے
کوئی چیز اس طرح بنوانا کہ وہ اپنے پاس سے،اتنی قیمت کو
بنادے،یہ صورت استصناع کہلاتی ہے کہ اگر اس چیز کے یوں
بنوانے کا عُرف جاری ہے اوراس کی قسم وصفت وحال وپیمانہ
وقیمت وغیرہا کی ایسی صاف تصریح ہوگئی
ہے کہ کوئی جہالت آئندہ منازعت کے قابل نہ رہے۔۔تو یہ عقد
شرعاً جائز ہوتا ہے۔‘‘(فتاوی
رضویہ،ج17،ص 597تا598،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مزید ایک مقام پر استصناع میں قیمت مجہول ہونے پر
تفصیلی کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’عند التحقیق استصناع ہر حال میں بیع
ہی ہے۔ کما نص علیہ فی المتون وصححہ المحققون من الشراح ففی
النقایۃ : الاستصناع باجل سلم تعاملوا فیہ او لا وبلا اجل فیما یتعامل
فیہ بیع والمبیع العین لاالعمل اھ، ومثلہ فی الاصلاح والملتقی
والتنویر وغیرھا وفی الھدایۃ:الصحیح انہ
یجوز بیعا لاعدۃ والمعدوم قد یعتبر موجودا حکما و المعقود
علیہ العین دون العمل ھوالصحیح
اھ ملخصا ونحوہ فی الایضاح والدر وغیرھما من الاسفار
الغروقداوضحنا المقام مع ازالۃ الاوھام بتوفیق الملک العلام
فیما علقناہ علی ردالمحتار‘‘ترجمہ: جیسا کہ متون میں اس پر صراحت کی
گئی اور محقق شارحین نے اس کی تصحیح فرمائی
ہے۔پس نقایہ میں ہے:استصناع
میں اگر مدت مقرر ہو،تو وہ سلم ہے،اس میں لوگوں کا عرف ہو یا نہ
ہو اور بغیر مدت مقرر کرنے کے اگر اس میں عرف جاری ہو،تو وہ بیع ہے اور مبیع عین ہے، نہ کہ عمل۔اور اسی کی مثل
اصلاح، ملتقی اور تنویر وغیرہ میں ہے اور ہدایہ میں ہے:صحیح یہ ہے کہ یہ بطور بیع جائز ہے
نہ کہ بطور وعدہ اور معدوم چیز کو کبھی حکمی طورپر موجود مان
لیا جاتا ہےاور جس چیز پر عقد ہوتا ہے،وہ عین ہے،کام
نہیں،یہی صحیح ہے۔
اور بیع ہرگز ایسی جہالتِ ثمن کا تحمل
نہیں کرسکتی کہ اتنی مدت ہو، تو یہ قیمت اور
اتنی ہو تو وہ۔فی الخلاصہ : ’’رجل باع شیئا
علی انہ بالنقد بکذا وبالنسئۃ بکذا اوالی شھر بکذا اوالی
شھرین بکذا،لم یجز‘‘ ترجمہ:خلاصہ میں ہے
کہ ایک شخص نے کسی چیز کو اس طرح بیچا کہ نقد اتنے
کی ہے اور ادھار اتنے کی ہے یا ایک مہینے کی
مدت تک اتنے کی اور دو ماہ کی مدت تک اتنے کی ہے،تو یہ
جائز نہیں۔تو استصناع میں اگرچہ ایک مہینہ یا
اس سے زائد نہ ہو،جب ایسی تردید کی جائیگی،عقد
فاسد ہوگا اور فسخ واجب۔‘‘(فتاوی
رضویہ،ج17،ص 599تا600 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
بحرین کے ادارے AAOIFIکی طرف سے مرتب کردہ کتاب’’المعاییر الشرعیہ‘‘جسے مسلم دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے،اس
میں عقدِ استصناع کے متعلق ہے:’’عقد
الاستصناع ملزم للطرفین اذا توافرت فیہ شروطہ وھی:بیان
جنس الشیء المستصنع ونوعہ وقدرہ واوصافہ المطلوبۃ
ومعلومیۃ الثمن وتحدید الاجل ان وجد ‘‘ترجمہ:استصناع فریقین کے لئے عقدِ لازم ہے،جبکہ اس میں
استصناع کی شرائط پائی جائیں اور وہ تیار کی جانے
والی چیز کی جنس،نوع،مقدار اور اس کے مطلوب اوصاف کو بیان
کرنا،ثمن کا معلوم ہونا اور اگر مدت ہو،تو اسے متعین کرنا ہیں۔(المعاییر الشرعیہ، المعیار الشرعی
رقم:11،ص298،مطبوعہ بحرین)
مزید اسی میں استصناع کے جواز کی شرائط کے بیان
میں ہے:’’ان
یکون ثمن الاستصناع معلوما ھو نفی الجھالۃ والغرر المفضیین
الی المنازعۃ‘‘ترجمہ:استصناع جائز ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ استصناع کا
ثمن معلوم ہو اور وہ (ثمن سے)جھگڑے کی طرف لے جانے والی جہالت اور
دھوکے کو دور کرنا ہے۔(المعاییر الشرعیہ، المعیار الشرعی
رقم:11،ص314،مطبوعہ بحرین)
عقدِ فاسد کرنے کی وجہ سے عاقدین گنہگار ہوتے ہیں،لہذا اس
کو ختم کرنا ضروری ہے۔العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ
میں ہے:’’ويجب على كل واحد منهماای من البائع والمشتري
فسخه قبل القبض او بعده ما دام فی يد المشتری اعداما للفساد،لانه
معصية، فيجب رفعها‘‘ترجمہ:بائع اور مشتری دونوں میں سے ہر
ایک کےلئے(مبیع پر)قبضہ کرنے سے پہلے اور قبضہ کے بعد بھی جب تک
مبیع باقی ہو ،بیع فاسدکوختم کرنا ضروری ہے، تاکہ فساد
ختم ہو جائے،کیونکہ عقد ِ فاسد کرنا
گناہ ہے،لہذا اس کو ختم کرنا واجب
ہے ۔(العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی
الحامدیہ،ج2،ص120،مطبوعہ دار المعرفہ ،بیروت)
سریے کی خریداری کی مدت ایک ماہ سے زیادہ بھی
ہوتی ہے،اس کے باوجود اسے استصناع کہا گیا،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ استصناع میں ایک ماہ سے
زیادہ مدت طے کرنے کی صورت میں اگرچہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک وہ بیع سلم بن جاتی ہے اور اس میں بیع
سلم کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے،لیکن
صاحبین علیہما الرحمۃ کے نزدیک وہ بیع استصناع ہی رہتی ہے اور ہمارےدور کے
جیدعلمائے کرام نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے، جیسا کہ شرعی کونسل آف
انڈیا بریلی شریف نے اپنے چھٹے فقہی
سیمینار میں دفع حرج شدید کے پیشِ نظر صاحبین
کے قول پر فتوی دیا، یوں ہی مجلس شرعی جامعہ
اشرفیہ مبارکپور نے بھی فلیٹوں کی بیع استصناع
میں حاجت شرعیہ و تعامل کے پیشِ نظر صاحبین کے قول پر فتوی دیا
ہے ۔ لہٰذا صاحبین کے مفتی بہ قول کے مطابق اگر
سریے کی بکنگ میں ایک
ماہ یا زیادہ کی مدت طے کر لی جائے، تب بھی وہ
بیع استصناع ہی رہے گی۔
مجلسِ شرعی کے فیصلوں میں
ہے:’’مذہبِ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جو ماخوذ و مفتیٰ بہ ہے،اس کی رو
سے اس وقت ’’بیع استصناع‘‘نہیں ہو سکتی جب کہ ایک ماہ
یا زیادہ دنوں کی مدت بیع میں مذکور ہو،لیکن
صاحبین رحمہما اللہ کا مذہب یہ ہے کہ تعامل کی صورت میں ذکرِ مدت کے ساتھ
بھی استصناع جائز ہے اور مدت کا ذکر تعجیل پر محمول ہو
گا۔۔مذہبِ امام اعظم سے عدول کے لیے حاجتِ شرعیہ متحقق ہے
اور یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے شہروں میں اس طریقہ
خریدوفروخت پر عوام و خواص کا عمل درآمد ہے۔ایسی صورت
میں صاحبین علیہما الرحمۃکے نزدیک ایک ماہ یا زیادہ
مدت ذکر ہونے کے باوجود استصناع جائز ہے اور قولِ صاحبین بھی باقوت
ہے،اس لیے اس صورت کو استصناع کے دائرے میں رکھتے ہوئے قولِ
صاحبین پر جائز ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘‘(مجلسِ شرعی کے فیصلے،ج1، ص238تا 239،والضحی پبلی
کیشنز)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟