Sood Ki Raqam Ka Kya Kiya Jaye?

سود کی رقم کا کیا کیا جائے ؟

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1978

تاریخ اجراء: 25صفرالمظفر1445ھ /12ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سودکی جمع شدہ رقم کسی بھی ضرورت مند کودےسکتےہیں؟یا صرف شرعی فقیرکوہی دیناہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سودحرام قطعی ہے،لہذاجس کسی نے بھی سودلیاہے،اسے چاہیےکہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے، اور آئندہ اس گناہ عظیم سے دوربھاگے،نیزسودکی رقم کاحکم یہ ہےکہ اولاً تو وصول نہ کرے لیکن اگر وصول کرچکا ہے تو جس سے لیا اسے واپس کردے یا  پھر کسی مسلمان شرعی فقیر کہ جو مستحق زکوۃ ہو اسے بغیرثواب کی نیت سے صدقہ کردی جائے۔

   سود کی رقم کا حکم بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : "جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے  فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے،وذٰلک لان الحرمۃ فی الرشوۃ وامثالھا لعدم الملک اصلا فھو عندہ کالمغصوب فیجب الرد علی المالک او ورثتہ ما امکن اما فی الربٰو اواشباھہ فلفساد الملک وخبثہ و اذا قدملکہ بالقبض ملکاخبیثا  لم یبق مملوک الماخوذ منہ لاستحالۃ اجتماع ملکین علی شیئ واحد فلم یجب الرد وانما وجب الانخلاع عنہ اما بالرد واما بالتصدق کما ھو سبیل سائر الاملاک الخبیثۃ“ ترجمہ:یہ اس لئے کہ رشوت اور اس جیسے مال میں ملکیت بالکل نہ ہونے کی وجہ سے حرمت ہے لہٰذا وہ مال رشوت لینے والے کے پاس غصب شدہ مال کی طرح ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو وہ مال اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹادیاجائے ،اور جہاں تک سُود یا اس جیسی اشیاء کا معاملہ ہے اس میں حرمت  فسادِ مِلک اور خباثت کی بناء پر ہے اور جب ملک خبیث پر قبضہ کرنے کی وجہ سے وہ مالک ہو گیا تو جس سےمال لیاگیا اب اس کی ملکیت باقی نہ رہی ، اس لئے کہ ایک چیز پر بیک وقت دو مِلک جمع ہونے محال ہیں لہٰذا مال ماخوذ کا واپس کرنا ضروری نہیں بلکہ اس سے علیحدگی واجب ہے خواہ اسی کو واپس لوٹا یا جائے یا صدقہ کر دیا جائے جس طرح دیگر املاک خبیثہ کا حکم ہوتا ہے ۔"(فتاوی رضویہ، ج23، ص551تا 552، مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم