Sone Ka Zewar Udhar Bechna Kasia Hai ?

سونے کا زیو ر ادھار بیچنا کیسا؟

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق : مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: Mad-1673b

تاریخ اجراء: 18شعبان المعظم 1437 ھ/26   مئی   2016 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر سونے کا بنا ہوا معین زیورکرنسی نوٹوں کے بدلے  ادھاربیچا جائے،یوں کہ  اس کی مدت وقیمت طے ہو جائے،  لیکن مجلس عقد میں نہ تو زیور خریدار کے حوالے کیا جائے اور نہ ہی رقم وصول کی جائے، بلکہ یونہی مجلس برخواست ہو جائے، تو کیا یہ عقد ختم ہو جائے گا یا گناہ ہوگا یا کچھ بھی نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں بیان کردہ خریدو فروخت شرعا جائز  ہے اوراس میں کوئی حرج نہیں ۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ سونے چاندی کے سکوں یعنی دینار ودرہم اور سونے چاندی کے بنے ہوئے زیورات میں  کچھ فرق ہے  اور وہ یہ کہ دینار و درہم تو عقد میں متعین نہیں ہوتے، بلکہ یہ ذمہ پر لازم ہوتے ہیں، لہٰذا چیز خریدتے وقت اگر کسی نے کہا کہ اس درہم کے بدلے یہ چیز دے دو تو بعد میں خریدار اس درہم کے بدلے دوسرا درہم بھی دے سکتا ہے، کیونکہ یہ درہم متعین نہیں ہوا تھا، لیکن سونے چاندی کا بنا ہوا زیورذمہ پر لازم نہیں ہوتا، بلکہ  عقد میں متعین ہو جاتا ہے، لہٰذا جس زیور پر عقد وارد ہوا ہو بعینہ اسی کو دینا لازم ہوتا ہے ۔

   اس تفصیل کے مطابق درہم و دینار کا تبادلہ جب کرنسی نوٹوں سے ہوگا، تو چونکہ یہ دونوں عقدمیں متعین نہیں ہوتے، بلکہ ذمہ پر لازم آتے ہیں، اس لیے عاقدین کی جدائی سے قبل ایک طرف سے قبضہ دینا ضروری ہے، کیونکہ دونوں طرف سے قبضہ نہ دینے کی صورت میں دونوں کے ذمہ دین ہوگا اوربغیر قبضہ کیے جدائی کرنے کی صورت میں بیع الکالئ بالکالئ یا افتراق عن دین بدین لازم آئے گا ،جس سے حدیث پاک میں منع فرمایا گیا ہے اوراگر سونے چاندی کے زیور کا تبادلہ نوٹوں سے ہوگا، تو اس صورت میں اگر ایک طرف سے بھی قبضہ نہ ہو، تو بیع الکالئ بالکالئ یا افتراق عن دین بدین لازم نہیں آئے گا،کیونکہ نوٹ تو دَین ہو ں گے، لیکن زیور متعین ہونے کی وجہ سے دَین نہیں ہوگا، لہٰذا یہ افتراق عن دین بعین ہوگایعنی ایک طرف معین چیز اور دوسری طرف دَین(ادھار) چھوڑ کر جدائی کرنا  ہوگا،جو شرعی طور پر جائز ہے ۔

   حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ” أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع الکالئ بالکالئ“ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نےدَین کی دَین کےبدلے بیع سے منع کیا ہے ۔(سنن دارقطنی،کتاب البیوع، جلد4، صفحہ40، مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت)

   شمس الائمہ امام سرخسی (متوفی 483ھ)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:” وإذا اشتری الرجل فلوسا بدراھم ونقد الثمن، ولم تکن الفلوس عند البائع فالبیع جائز، لأن الفلوس الرائجۃ ثمن کالنقود.....وبیع الفلوس بالدراھم لیس بصرف، وکذلک لو افترقا بعد قبض الفلوس قبل قبض الدراھم، ...... فالفلوس الرائجۃ بمنزلۃ الأثمان، لاصطلاح الناس علی کونھا ثمنا للأشیاء فإنما یتعلق العقد بالقدر المسمی منھا فی الذمۃ، ویکون ثمنا، عین أو لم یعین کما فی الدراھم والدنانیر، وإن لم یتقابضا حتی افترقا بطل العقد، لأنہ دین بدین، والدین بالدین لا یکون عقدا بعد الافتراق...... وإن اشترى خاتم فضة أو خاتم ذهب فيه فص، أو ليس فيه فص بكذا فلسا، وليست الفلوس عنده فهو جائز إن تقابضا قبل التفرق أو لم يتقابضا، لأن هذا بيع، وليس بصرف فإنما افترقا عن عين بدين؛ لأن الخاتم يتعين بالتعين بخلاف ما سبق فإن الدراهم والدنانير لا تتعين بالتعيين؛ فلهذا شرط هناك قبض أحد البدلين في المجلس، ولم يشترط هنا “ترجمہ: اگر کسی نے دراہم کے بدلے میں سکے خریدے اور ثمن ادا کر دیا جبکہ بیچنے والے کے پاس سکے موجود ہی نہیں، تو یہ بیع جائز ہے، کیونکہ رائج الوقت سکے سونے چاندی کی طرح ثمن ہوتے ہیں۔اور سکوں کی دراہم کے بدلے میں بیع صرف نہیں ہوتی ۔اور اسی  طرح اگر عاقدین یوں جدا ہوئے کہ سکوں پر قبضہ ہوگیا تھا، لیکن دراہم پر نہیں ہوا تھا، تب بھی بیع درست ہے ۔(کیونکہ ) فلوس رائجہ اثمان کے قائم مقام ہوتے ہیں کہ لوگوں کی اصطلاح میں یہ اشیاء کا ثمن ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی بیان کردہ مقدار پر جو عقد وارد ہوا ،اس کا تعلق ذمہ سے ہوگا اور یہ معین کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں دونوں صورتوں میں ہی ثمن ہوتے ہیں ،دراہم و دنانیر کی طرح۔ اور اس مسئلے میں اگر دونوں طرف سے قبضہ نہ ہوا، یوں ہی جدا ہوگئے، تو یہ عقد باطل ہو جائے گا ،کیونکہ یہ دَین کے بدلے میں دَین ہے اوردَین کے بدلے میں دَین جدائی کے بعد عقد نہیں رہتا ۔اور اگر کسی نےچاندی کی یا سونے کی انگوٹھی نگ  والی یا بغیر نگ والی سکوں کی مخصوص مقدار کے بدلےخریدی ،لیکن سکے اس کے پاس نہیں ہیں، تو یہ بیع جائز ہے ،جدا ہونے سے پہلے دونوں قبضہ کر لیں یادونوں قبضہ  نہ کریں ،کیونکہ یہ (مطلق)بیع ہے، بیع صرف نہیں اور یہ افتراق عن عین بدین ہے (یعنی ایک طرف معین چیز اور ددوسری طرف دَین ہے) اس لیے کہ انگوٹھی متعین کرنے سے متعین ہو جاتی ہے، بخلاف پہلے مسئلے کے کہ( وہاں دراہم و دنانیر تھے اور ) دراہم و دنانیر معین کرنے سے بھی معین نہیں ہوتے،لہٰذا وہاں مجلس میں ایک طرف سے قبضہ شرط قرار دیا گیا ہے اور یہاں یہ شرط نہیں ۔(مبسوط للسرخسی، جلد14،صفحه  24-25، دار المعرفہ، بیروت)

   محیط برہانی میں ہے :ولو باع تبر فضة  بعینہ بفلوس بغير أعيانها وتفرقا قبل أن يتقابضا فهو جائز، لأن التبر هاهنا بمنزلة العروض، فكأنه باع عرضاً بفلوس بغير أعيانها، وهناك لا يشترط التقابض كذا هاهنا وان لم يكن التبر عنده لم يجز بمنزلة ما لو باع عرضاً ليس عنده بفلوس“ترجمہ: اور اگر چاندی کا معین ٹکڑا غیر معین سکوں کے بدلے فروخت کیا اور دونوں طرف سے قبضہ نہیں ہوا کہ دونوں جدا ہوگئے، تو یہ جائز ہے، کیونکہ چاندی کا ٹکڑا یہاں سامان کے قائم مقام ہے، تو گویا اس نے سامان غیر معین سکوں کے بدلے فروخت کیا اور ایسی صورت میں تقابض شرط نہیں ہوتا، لہٰذا یہاں بھی شرط نہیں ہوگا اور اگر بیچنے والے کے پاس چاندی کا ٹکڑا موجودنہیں ،تو پھر یہ خریداری جائز نہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص سکوں کے بدلے ایسا سامان فروخت کرے جو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔(محیط برھانی،کتاب الصرف،الفصل الثانی،  جلد 10،  صفحہ412، ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ)

   البحر الرائق ، فتح القدیروغیرہ میں ہے: ”المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا، ولهذا يتعين في العقد“سونے چاندی کی  ڈھالی ہوئی اشیاء میں جو کاریگری ساتھ مل جاتی ہے، تو اس کی وجہ سے یہ ثمن صریح نہیں رہتیں،اسی وجہ سے یہ عقد میں متعین ہو جاتی ہیں ۔(بحر الرائق ، جلد5، صفحہ257، دار الکتاب الاسلامی)

   بحر میں ہی  ہے:”ودخل المصوغ من الذهب والفضة كالآنية تحت القيميات فتتعين بالتعيين للصفة“ترجمہ: سونے چاندی کی ڈھالی ہوئی اشیاء جیسے برتن، یہ قیمی چیزوں کے تحت داخل ہیں، لہٰذا ان کے وصف کی وجہ سے یہ معین کرنے سے معین ہوجاتے ہیں۔(بحر الرائق، جلد5، صفحہ299، دار الکتاب الاسلامی)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:” المصوغ من الججرین ایضا لایثبت دینا فی الذمۃ بل یتعین فی العقود کما تقدم عن البحر“ترجمہ: چاندی سونے کی گھڑی ہوئی چیز (مثلاً :برتن یا گہنا) یہ بھی ذمہ پر دَین نہیں ہوتے بلکہ عقد میں متعین ہوجاتے ہیں، جیسا کہ بحرالرائق سے گزرا۔(ت)‘‘(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ405، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   تنبیہ (1): واضح رہے کہ سوال میں جو صورت پوچھی گئی وہ سونے کے متعین زیور کی خریدو فروخت کے متعلق ہے ۔لیکن کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سونے کامتعین زیورنہیں بیچا جا رہا ہوتا، بلکہ غیر متعین طورپر  سونے کی خریدو فروخت کا معاہدہ ہوتا ہے، مثلا: بیچنے والا سونے کی چین بیچتا ہے جس میں سونے کا معیاراور وزن تو طے ہو جاتا ہے، لیکن وہ چین متعین نہیں ہوتی او رپھر دونوں طرف سے اس مجلس میں ادائیگی بھی نہیں ہوتی بلکہ معاملہ دونوں طرف سے ادھار ہی رہتا ہے ، یہ صورت بیع الکالئ بالکالئ کی ہے  جو ناجائز و گناہ ہے اور حدیث پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے ، ایسی صورت میں افتراق عن دَین بدَین یعنی دونوں طرف سے ادائیگی کے بغیر جدا ہوجانے کی وجہ سے  یہ معاہد ہ  باطل ہو جاتا  ہے، جیسا کہ اوپر  بیان کردہ جزئیات سے واضح ہے۔

   تنبیہ (2): یہ بھی واضح رہے کہ   ہمارے ہاں عام طور پر جویہ صورت ہوتی ہے کہ جس نے سونے کا سیٹ یا کوئی اور چیز بنوانی ہو وہ سنار کے پاس جاتا ہے اور سنار اسے بطور سیمپل(sample) بنا  ہوا زیور دکھا دیتا ہے،پسند آنے پر خریدار اسے کہتا ہے کہ ٹھیک اس طرح کا سیٹ اتنے تولے  میں بنا دیں اور کچھ دن بعد پھر سنار اس کو بنا کر دے دیتا ہے،  تو یہ صورت سوال میں بیان کردہ صورت سے مختلف ہےاور اس کا تعلق بیع استصناع      (آرڈر کی بیع )سے ہےجس کی  تفصیل وشرائط وغیرہ  دار الافتاء اہلسنت کے دوسرے فتوے (جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے)میں موجود ہے ۔

https://www.daruliftaahlesunnat.net/ur/udhar-mein-order-par-zewar-banana-kaisa-hai

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم