مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0035
تاریخ اجراء:28ذوالحجۃ الحرام1444ھ/17جولائی2023ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics
Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت
اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک دوکاندار موبائل فون کے ڈیزائن
والے کوَر (Cover) بیچتا ہے۔ وہ ہمیں یہ آفر دے رہا
ہے کہ ہم اس کے موبائل کوَر(Cover) اپنے سوشل میڈیا مثلاً واٹس ایپ، فیس
بک، انسٹاگرام کے ذریعے تصویرلگاکرفروخت کریں۔اورکسٹمرکوریٹ
دیتے ہوئے اپنا نفع بھی شامل کرلیں ۔ جب تصویرکے ذریعے
کسی کسٹمرسے ہماراسوداکنفرم ہوجائے تو ہم دوکاندار کو کسٹمر کا ایڈریس
بتادیں، وہ خود کسٹمر تک ڈیلیوری پہنچا دے گا اور اپنی
رقم کاٹ کرہمیں ہمارا پرافٹ دے دے گا، کیا ہمارا اس طرح پرافٹ لینا
درست ہے؟ اگر یہ طریقہ کار
درست نہیں تو اس کا کوئی جائز حل بھی ارشاد فرمادیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق
خرید و فروخت کرنا اور اس سے نفع
حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ خرید
وفروخت کی بنیادی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ
جس چیز کو بیچا جا رہا ہو وہ بیچنے والے کی ملکیت میں
ہو۔ اگر بیچنے والے کی
ملکیت میں وہ چیز نہ ہو تو ایسی بیع ، بیع
باطل قرار پاتی ہے یعنی سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی۔
اسی طرح خرید و فروخت کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کو بیچا
جارہا ہےوہ اگر منقولی چیز ہو تو خریدنے کے بعد اس پربیچنے
والے کا قبضہ بھی ہوچکا ہو۔ اگر بیچنے والے نے منقولی چیز
پر قبضہ کرنے سے پہلےہی اسے آگے بیچ دیا تو ایسی
بیع ، بیع فاسد قرار پاتی ہےلہٰذا مذکورہ طریقہ کار
کے مطابق خرید و فروخت جائز نہیں۔
مذکورہ ناجائز صورت کا ایک متبادل طریقہ
اس کا جائز حل یہ ہے کہ اگر دوکاندار کے پاس وہ
موبائل کوَر (Mobile Cover)موجود
ہیں توآپ دوکاندار سے یہ معاہدہ کرلیں کہ یہ کوَر
(Cover) میں
آپ سے خریدکر آگے بیچنے کے بجائے آپ کامال
بطورکمیشن ایجنٹ فروخت کروں گااور ہرپیس فروخت کرنے پر اتنےفیصد
کمیشن لوں گا۔ کمیشن مقرر کرنے میں اس بات کا خیال
رکھنا ضروری ہے کہ وہ کمیشن اجرتِ مثل یعنی مارکیٹ میں رائج کمیشن سے
زائد نہ ہو۔ اب آپ اس دوکاندار کے کمیشن ایجنٹ بن کر اس
کے موبائل کور (Mobile Cover)کی
تصاویر اپنے سوشل میڈیا پیجز پر لگائیں اور اسے
فروخت کریں، یوں آپ کے لئے ہر پیس پر دکاندار سے مقررہ
کمیشن لینا جائز ہوگا۔
غیر مملوک کی
بیع سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ لاتبع ماليس عندك‘‘ یعنی: جو چیز
تمہاری ملکیت میں نہ
ہو، اسے مت بیچو۔(سنن النسائى، ج7، ص289، حلب)
بیع قبل القبض سے
ممانعت کے متعلق رسول کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه، قال ابن عباس: وأحسب كل شىء بمنزلة الطعام
‘‘یعنی:جو شخص
طعام خریدے، تو قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے نہ بیچے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میرا خیال
ہے کہ تمام اشیاء طعام کی طرح ہیں۔(صحيح مسلم،ج3، ص1160، بيروت)
بدائع الصنائع میں
ہے:’’شرط انعقاد البيع
للبائع ان يكون مملوكا للبائع عند البيع فان لم يكن لاينعقد‘‘یعنی:بیع منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ چیز
بیچتے وقت بائع کی ملکیت
میں ہو،اگر اس کی ملکیت میں نہ ہو تو بیع منعقد نہ
ہوگی۔(بدائع الصنائع،ج05،ص147،
بيروت)
بدائع الصنائع میں
ہے:’’ومنها القبض فى بيع
المشترى المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض‘‘ یعنی:منقولی
چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ کرنا بھی بیع
کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، لہذا قبضہ سے
پہلے اس کو آگے بیچنا درست نہیں ۔(بدائع الصنائع،ج05،ص180، بيروت)
الاشباہ والنظائر میں ہے:’’بعه لى بكذا، ولك كذا فباع، فله اجر المثل“یعنی:اگرکسی
کو یہ کہا کہ تو میرے لئے اس چیز کو فروخت کروا دو ، میں تجھے اتنی رقم بطور اجرت دوں
گا تو فروخت کرنے والا اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا۔
الاشباہ والنظائر کی اس عبارت کے تحت شرح حموی
میں ہے:’’اى ولايتجاوز به ماسمى“یعنی:اجرت
مثل مقررہ اجرت سے زائد نہ ہو ۔(شرح حموى على الاشباه والنظائر،
ج3،ص131، بیروت)
مذکورہ صورت میں کمیشن ایجنٹ
کو اجرت دینا بائع کی ذمہ داری ہے جیسا کہ درمختار میں
ہے:’’واما الدلال فان باع
العين بنفسه باذن ربها فاجرته على البائع“یعنی:جب کمیشن ایجنٹ نے سامان کے
مالک کی اجازت سے مال فروخت کیا تو اس کی اجرت بائع کے ذمہ ہوگی۔(درمختار مع رد المحتار ، ج4، ص560،
بيروت)
فتاوی رضویہ
میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بائع سے معاہدہ کرنے والے کمیشن ایجنٹ کی اجرت کے متعلق
فرماتے ہیں:”اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا
زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے
کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا
اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل
سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی
ہوچکا۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ453،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
بہار شریعت میں
ہے:” دلال کی اُجرت یعنی دلالی بائع کے ذمہ ہے جب کہ اُس
نے سامان مالک کی اجازت سے بیع کیا ہو۔“(بہار شریعت،ج2،ص639،مطبوعه
مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟