Shares Ke Karobar Ka Hukum?

شیئرز کے کاروبار کا حکم

مجیب:مولانا انس صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-9061

تاریخ اجراء:19محرم الحرام1441ھ/19ستمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمپنیوں کے شیئرز دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن پر نفع و نقصان ہوتا ہے۔ دوم وہ جن پر فقط نفع ہو ، جس کو ہم سود کہتے ہیں ۔جناب عالی مندرجہ بالا دوسری قسم تو مکمل حرام ہے ، کیونکہ یہ سود ہے۔مگر میراآپ سے سوال یہ ہے کہ  پہلی قسم جس میں شیئرز ہولڈر اپنے حصے کے شیئرز پر نفع بھی لے رہا ہے اور نقصان بھی برداشت کررہا ہے ، کیا وہ جائز نہیں؟ علماء و مفتیان کرام پہلی قسم یعنی نفع و نقصان والے شیئرز کو بھی حرام قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر کمپنی چونکہ قرضہ لیتی یا دیتی ہے ، تو اس قرضہ کے لینے ،دینے پر وہ سود کماتی یا دیتی ہے ، لہٰذا چونکہ کمپنی کی کمائی میں سود شامل ہوگیا ، لہٰذا اس کمپنی  کے شیئرز خواہ وہ مساواتی ہوں ، وہ حرام ہیں۔علماء کرام کے اس موقف پر مجھ ناچیز اور کم علم رکھنے والے شخص کا سوال ہے : جیسے میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ بھی سرکاری خزانے سے میرے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے ،توکیا آپ اس سرکاری تنخواہ و پنشن کو بھی حرام قرار دیں گے؟کیونکہ سرکار بھی تو دوسرے ملکوں اور بینکوں  سےقرضہ لیتی اور خزانے سے پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کو قرضہ دیتی ہے۔اگر سرکاری تنخواہ و پنشن حرام ہے ، تو بڑے بڑے علماء ومفتیان  کرام بھی تو سرکارسے تنخواہ و پنشن لیتے ہیں ،تو کیا وہ بھی حرام کمارہے ہیں؟

    میرا سوال آپ سے مندرجہ بالا سوالات و حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہے کہ مساواتی شیئرز جائز ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آپ کے سوال سے عیاں ہے کہ آپ کو شیئرز کے کاروبار کے متعلق مکمل معلومات نہیں ہیں ۔اس لیے پہلے مختصرا آپ کا مطلوبہ جواب پیش کیا جاتا ہے اوراس کے بعد تفصیلا ً اس نظام پر کلام کیا جاتا ہے تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ مساواتی حصص کس طرح کے عقد پر مشتمل ہوتے ہیں۔

مختصر جواب:مساواتی شیئرز کے ذریعہ کمنپی میں شریک ہونا بھی  جائز نہیں ہے اگرچہ مساواتی حصص والا نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے۔جس کی وضاحت یہ ہے کہ

     اگر کمپنی  نے دس لاکھ روپے جمع کیے،پانچ لاکھ ترجیحی حصص اور قرض تمسکات کے ذریعہ،پانچ لاکھ مساواتی حصص کے ذریعہ۔ اور دو لاکھ کا نقصان ہو ا تو اس  نقصان میں ترجیحی حصص اور قرض تمسکات والے بالکل شریک نہ ہوں گے،بلکہ ان کو مقررہ سود ملتارہے گا اور ان کا اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور دو لاکھ کا سارانقصان مساواتی حصص والوں پر عائد ہوگا۔ اس طرح یہ شریک سودی معاملات میں ملوث  ہوگیا ۔

    رہاسوال میں مذکور سرکاری خزانے اور بینک کے حوالے سے آپ کا  اشکال ؟ تو ہماری مذکورہ گفتگو سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ مساواتی حصص دار خود عملاً سود ی معاملات میں شریک ہے۔جبکہ حکومت کے سود لینے دینے میں عام مختلف اداروں کے سرکاری ملازمین کا کوئی کردار نہیں ہوتا ۔اسی طرح بینک کے سود لینے دینے میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر زکا کوئی کام نہیں ہوتا ۔

    تفصیلی جواب:تفصیل یہ ہے کہ شیئرز یعنی حصص کا کاروبار اس طرح سے ہوتا ہے کہ بڑے ادارے بینکوں سے ادھار لینے کی بجائے کوشش کرتے ہیں کہ اپنے حصص یعنی کچھ کاروباری حصے عوام کو فروخت کر دیتے ہیں۔ یہ حصص یعنی شیئرز کہلاتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے شیئرز کی مارکیٹ ویلیو کے تعین میں بہت سے عوامل ہوتے ہیں، مثلاً کمپنی کی Financial Position کیسی ہے؟ اس چیز کو جج کرنے کے لیے کچھ Indicators ہوتے ہیں جو کہ ماہرین کا کام ہے۔ پھر اس کمپنی کی مارکیٹ میں ساکھ کیا ہے؟ اس کمپنی کے فیوچر پلانز کیا ہیں؟ اسکی مینیجمنٹ کیسی ہے؟ وغیرہ۔

    ان شیئرز خریدنے والوں کو شیئرز ہولڈرز کہتے ہیں۔ جب سالانہ نفع ہوتا ہے ، تو اس کو شیئرز ہولڈرز میں ان کی انویسٹمنٹ کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔انڈیکس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ کتنے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہوا اور کتنے کی قیمت میں کمی؟ اس کی بنیاد پر کل انڈیکس ظاہر ہوتا ہے کہ آج کتنا انڈیکس چڑھا یا گرا۔منافع یا نقصان کو ملکی حالات، کاروباری حالات وغیرہ سے ماپا جاتا ہے۔ جیسے سیمنٹ کے شیئرز کی قیمتیں کسی بڑے ڈیم یا تعمیراتی منصوبے کے اعلان کے بعد بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بینک عموماً ترقی کی طرف جاتے ہیں وغیرہ۔جس کمپنی کے شیئرز زیادہ خریدے جائیں ، ان کی قیمت بڑھ جاتی ہیں اور جس کمپنی کے شیئرز بیچے جاتے ہیں زیادہ تعداد میں ان کی قیمت کم ہو جاتی ہےاور اگر زیادہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ جائے تو اس سے انڈیکس میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے اور وہ بڑھ جاتا ہے اور اگر خریداری کم ہو اور شیئرز کا بیچنا یا کاروبار نہ ہو تو انڈیکس گر جاتا ہے اور اسے مندی کہتے ہیں۔ جس قیمت پر سرمایہ دار نے شیئرز خریدے ہوتے ہیں ، وہ ایک جیسی نہیں رہتی ، کیونکہ شیئرز کی قیمت کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، اس میں کمپنی کی شہرت ، اس کے پھیلاؤ ، ترقی اور استحکام اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    شیئرز سے منافع دو قسم کے ہوتے ہیں :ایک تو وہ جو سٹاک ایکسچینج میں ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شیئر آپ نے سو روپے میں خریدا، کچھ دن بعد اسکی مارکیٹ ویلیو دو سو ہوگئی اور آپ نے اپنے شیئرز بیچ دیے۔ دوسری طرح کے منافع کو Dividend کہتے ہیں، یہ منافع وہ ہوتا ہے جو کمپنی ہر سال یا ششماہی اپنے شیئرز ہولڈرز کو فی شیئر کے حساب سے دیتی ہے۔ یہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے : ایک تو وہ کہ کمپنی کیش کی صورت میں دیتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کیش نہیں دیتی بلکہ اسکے بدلے میں مزید شیئرز دے دیتی ہے۔

    سٹاک ایکسچینج میں حصص کی خرید وفروخت کا کام بہت زیادہ گنجلک ہوتا ہے۔ اس لیے کمپنیاں نقصان سے بچنے کی خاطراس فن کے ماہرین کو اپنا نمائندہ بناتی ہیں اور انہیں ممبر شپ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہیں۔ سٹاک ایکسچینج کے یہ ممبران جہاں اپنے لیے حصص خریدتے اور بیچتے ہیں ،وہاں بحیثیت دلال(Broker) دوسروں کے لیے بھی کمیشن پر شیئرز کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔

    حصص کی اقسام:

    ابتدائی حصص: کسی کمپنی کی تشکیل سے پہلے ایک ابتدائی تخمینہ تیار کیا جاتا ہے۔اسے فزیبلٹی رپورٹ (Fusibility Report) کہتے ہیں۔اسی طرح کمپنی کا اجتماعی ڈھانچہ(Memorandum) تیار کیا جاتا ہے اور کمپنی کے قواعد وضوابط (Articles of Association) طے کیے جاتے ہیں ۔ پھر حکومتی ادارہ کارپوریٹ لاء اتھارٹی کے سامنے ان چیزوں کو پیش کرکے اجازت نامہ حاصل کیا جاتا ہے اور کمپنی اگر دیگر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک کرنا چاہے تو وہ ان امور سے انہیں مطلع کرنے کے لیے تعارفی تحریر (Prospectus) جاری کرتی ہے۔ اس تحریر کے مطابق اگر کمپنی کے اثاثہ جات کی مالیت مثلا ایک لاکھ روپے ہے تو وہ ایک لاکھ کے حصص جاری کرتی ہے۔ اور لوگ حسب حیثیت حصص خرید کر کمپنی کے شراکت دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح جمع شدہ نقدی سرمایہ کو سیال سرمایہ (Liquid Asset) کہاجاتا ہے اور جب اس سے مشینری ‘ خام مال وغیرہ خرید لیا جائے تو اسے منجمد سرمایہ (Fixed Asset) کہتے ہیں۔

 مساواتی حصص(Equality Shares): شیئرز خریدنے والے (Share Holder) بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں : مساواتی اور ترجیحی۔مساواتی  نفع نقصان کی بنیاد پر شرکت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شیئرز خرید کر کمپنی کے حصہ دار بن جاتے ہیں اور شراکت کی بنیاد پر کمپنی کے سالانہ نفع یا نقصان میں حصہ دار بنتے ہیں۔یہ لوگ کسی کمپنی کے شیئرز خرید لیتے ہیں اور جب ان پر مناسب نفع ملے تو انہیں فروخت کر دیتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ سٹاک مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں اور مختلف کمپنیوں کے اتار چڑھاؤ پر اندازے لگاتے رہتے ہیں جب انہیں کسی کمپنی کے حصص کی قیمتیں بڑھتی ہوئی نظر آئیں تو وہ سستے داموں ا نہیں خرید لیتے ہیں اور پھر قیمتیں بڑھنے پر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں شیئرز کی قیمت بڑھنے سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اسے کیپٹل گین (Capital Gain) کہا جاتا ہے۔ اور سٹاک مارکیٹ میں زیادہ تر خریدار اسی قسم سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ۔

    ترجیحی حصص (Preference Shares):یہ حصص عام حصص(Ordinary Shares) سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان حصص کے خریدار کوکمپنی اپنے معاہدے کے مطابق نفع میں ترجیح دیتی ہے یعنی کمپنی کا کاروبار نفع میں ہو یا نقصان میں ، انہیں بہر حال نفع ملتا رہتا ہے۔ تو مساواتی حصہ والوں کے بالمقابل انہیں نفع میں ترجیح دی جاتی ہے،اس لیے ان حصص کو ترجیحی حصص کہتے ہیں۔ نفع کی شرح ان حصص میں بھی فیصد کے لحاظ سے ہی مقرر کی جاتی ہے ۔ مثلا 5فیصد،10فیصد۔مگر اس فیصد کا تعین تجارت کے نفع کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا ، بلکہ حصہ داروں کے ذریعہ جمع شدہ روپوں کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ،اس لیے یہاں5 فیصد کا مطلب مثلا سور روپے میں 5روپے ہیں یعنی اگر کسی شخص نے پانچ سوروپے کے ترجیحی حصص 5 فیصد نفع کے حساب سے لیے ، تو اس کانفع آج ہی سے 25روپے معلوم ومتعین ہے۔اب کمپنی کو اپنی تجارت میں نفع ہو یا نقصان اسے یہ25روپے بطور نفع برابر ملتے  رہیں گے۔ترجیحی حصص کا یہ معاملہ نہ شرکت ہے ،نہ مضاربت  بلکہ یہ واقع میں عقدِقرض ہے ،جو نفع کی شرط سے مشروط ہے۔نفع کی شرط پر قرض کا لین دین سودی کاروبارہے ، کیونکہ خود یہ نفع ہی سود ہے۔

    مزید شیئرز کے کاروبار میں قرض تمسکات ہیں کہ کمپنی عوام سے قرض لے کر ان کو ایک چھپی ہوئی رسید دیتی ہے ، جس پر قرضے کی رقم ،اس کی رقم کی ادائیگی کی مدت اور دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں،اسی رسید کو ڈبینچرز (Debentures)اور سند قرض بھی کہا جاتا ہے۔کمپنی حصص سے الگ تھلگ عوامی قرض تمسکات جاری کرتی ہے ، جس پر وہ ایک مقررہ شرح سے اپنے قرض خواہوں کو سود دیتی ہے ۔عوامی قرض تمسکات تمام منظور شدہ سرمایہ جاری ہونے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔ترجیحی حصص والی ہی صورت قرض تمسکات میں بھی ہوتی ہے۔کمپنی اپنے حصص کا اجرا قرض تمسکات سے منسلک کرکے کرتی ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو شخص صرف حصص میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے ، اسے کمپنی کے حصص کے ساتھ قرض تمسکات بھی لازماً با دلِ نخواستہ لینے پڑتے ہیں ۔ایسی صورت میں کمپنی اسنادِ حصص اور قرض تمسکات الگ الگ جاری کرتی ہے۔اس رسید میں قرضہ کی رقم ،شرح سود،رقم کی ادائیگی،اس کی مدت اور دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

    حاصل بحث:شیئرز کا نظام اگر آپ سمجھ گئے ہوں ، تو آپ پر واضح  ہوگیا ہوگا کہ اس کے ناجائز ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کہمساواتی حصص میں گو نفع و نقصان میں برابر کی شرکت ہوتی ہے لیکن یہ اپنے ساتھ سودی قرض کی پیچیدگی لیے ہوئے ہے ۔کمپنی اپنا  سود از خود ادا نہیں کرتی بلکہ مساواتی شیئر ہولڈرز اس سود کو ادا کرتے ہیں۔کیونکہ یہ شرکت سودی قرض میں آلودگی کے بغیر ممکن نہیں اور یہ آلودگی بلاشبہ ناجائز ہے،تو جو چیز اس آلودگی کا ذریعہ بنے گی ، وہ بھی ناجائز ہوگی۔علماء کے ایک گروہ کا مؤقف ہے کہ مساواتی حصص والا سود کے لین دین میں عملی طور پر مبتلا ہے اور بعض کے نزدیک یہ عملی طور پر ملوث نہیں لیکن اس سودی عقد میں تعاون کررہا ہے ، البتہ تمام علمائے محققین کے نزدیک ترجیحی حصص کی طرح مساواتی حصص بھی ناجائز ہیں۔

    مجلس شرعی کے فیصلے نامی کتاب میں ہے:”مساواتی حصص والانفع اورنقصان دونوں میں شریک ہوتاہے ۔ اگرکمپنی نے دس لاکھ روپے جمع کیے،پانچ لاکھ ترجیحی حصص اورقرض تمسکات کے ذریعہ۔پانچ لاکھ مساواتی حصص کے ذریعہ اور دو لاکھ کا نقصان ہو ا تو اس  نقصان میں ترجیحی حصص اور قرض تمسکات والے بالکل شریک نہ ہوں گے،بلکہ ان کو مقررہ سود ملتارہے گا اور ان کا اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور دو لاکھ کا سارانقصان مساواتی حصص والوں پر عائد ہوگا۔ اس طرح یہ شریک سود دینے اور سودی قرض کا نقصان سہنے کا عملاً مرتکب ہوگیا ۔۔۔اس لیے یہ شرکت ناجائزہے۔یہ رائے حضرت شارح بخاری (علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی)،حضرت محدث کبیر(علامہ ضیاء المصطفی قادری)اورحضرت (علامہ محمداحمد)مصباحی دامت برکاتہم القدسیہ کی ہے ۔“

(مجلس شرعی کے فیصلے،ص141،دارالنعمان،پاکستان)

    مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانامحمد وقارالدین رضوی قادری علیہ الرحمۃ ارشاد فرما تے ہیں: ” کسی کمپنی کے شیئرز خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کمپنی کے ایک حصہ کو خریدلیا ہے اور آپ اس حصہ کے مالک ہوگئے اور وہ کمپنی جو جائز و ناجائز کام کرے گی اس میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔ جتنی کمپنیاں قائم ہوتی ہیں وہ اپنے شیئرز کے اعلان کے ساتھ مکمل تفصیلات بھی شائع کردیتی ہیں کہ یہ کمپنی کتنے سرمایہ سے قائم کی جائے گی ، اس میں غیر ملکی سرمایہ کتنا ہوگا اور ملکی قرضہ کتنا ہوگا اور کمپنی قائم کرنے والے اپنا کتنا سرمایہ لگائیں گے اورکتنے سرمایہ کے شیئرز فروخت کیے جائیں گے؟ لہٰذا شیئرز خریدنے والااس سود کے لین دین میں شریک ہوجائے گا۔ جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے تو وہ شیئرز خریدنا بھی حرام ہے ۔“

( وقارالفتاوی، جلد1،صفحہ 234،بزم وقارالدین،کراچی)

    مفتی نظام الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:”مساواتی حصص اپنی حقیقتِ شرعیہ کے لحاظ سے سرمایہ شرکت ہیں اور ان کے ذریعے کمپنی میں زرکاری شرکت کی ایک خاص قسم ”شرکت عنان “ہے جو شرعا جائز ہے، اس لیے کمپنی میں یہ زرکاری بھی جائز ہونی چاہیے۔لیکن کمپنی خسارے کی صورت میں اپنے ذمہ کا سود اداکرنے کے لیے ہر شریک سے کچھ نہ کچھ لیتی ہے، تو یہ جانتے ہوئے کمپنی میں شرکت قبول کرنا ایک ناجائز کام میں تعاون کا ذریعہ ہوا، اس لیے کمپنی کا شریک بننا ناجائز ہے۔“

(شیئرز کا کاروبار (شرعی مسائل) ،صفحہ59،فرید بک سٹال،لاهور)       

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم