Saman Bechne Wale Ke Gari Load Karane Par Kharidar Ka Qabza Hoga Ya Nahi?

سامان بیچنے والےکے گاڑی لوڈ کرانے پر خریدار کا قبضہ شمار  ہوگا یا نہیں ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر خریدار سامان خریدنے کے بعد بیچنے والے سے یہ کہے کہ آپ میری طرف سے سامان لوڈ کرنے والی گاڑی کرواؤ ، گاڑی کے پیسے میرے ذمے ہیں ، تو کیا گاڑی والے کا قبضہ کرنا خریدار کا قبضہ کہلائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر واقعی خریدار کے کہنے پرسامان بیچنے والا کسی گاڑی والے سے بات کر کے سامان لوڈ کروا دے گا تو گاڑی والے کا قبضہ اس چیز کو خریدنے والے کا قبضہ شُمار ہوگا کیونکہ یہاں گاڑی والا اس خریدار کی طرف سے وکیل کی حیثیت سے اس سامان پر قبضہ کر رہا ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ شُمار ہوتا ہے۔یہاں گاڑی والے کو خریدار کی طرف سے قبضہ کرنے کا وکیل ماننے کی وجہ یہ ہے کہ گاڑی والا خریدار کا اجیر ہے اور اس کے لئے کام کر رہا ہے اسی وجہ سے اپنے کام کی اُجرت خریدار سے وصول کرے گا۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ”اذا قال المشتری للبائع ابعث الی ابنی ، و استاجر البائع رجلا یحملہ الی ابنہ ، فھذا لیس بقبض والاجر علی البائع الا ان یقول : استاجر علیّ من یحملہ ، فقبض الاجیر یکون قبض المشتری ان صدقه انه استأجر و دفع اِليه“ ترجمہ : مشتری نے بائع سے کہا مال میرے بیٹے کو پہنچا دو ، بائع نے ایک شخص کو اجیر بنا کر مال بیٹے کو بھیج دیا تو  یہ قبضہ نہیں ، اس کی اجرت بائع پر ہے۔ سوائے یہ کہ مشتری کہہ دے کہ میری طرف سے اجیر رکھ کر سامان بھیج دو تو اجیر کا قبضہ مشتری کا قبضہ ہوگا جبکہ وہ تصدیق کر دے کہ اسے اجیر بناکر سامان دےدیا ہے۔  ( فتاویٰ عالمگیری ، 3 / 19 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم