Raqam Advance Le Kar Order Par Gold KI Jewellery Tayyar Kar Ke Bechna

رقم ایڈوانس لے کر آرڈر پر سونے کے زیورات تیار کر کے بیچنا

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی                                  

فتوی نمبر: Web-389

تاریخ اجراء: 30ذوالحجۃالحرام1443ھ/30 جولائی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   كياسونے کازیوراس طرح بیچ سکتے ہیں کہ پہلے قیمت وصول کرلی جائے ،بعدمیں دکاندارزیورتیارکرواکرخریدار کومقررہ وقت پردے ، اس طرح سوداکرنے کی شرعاًاجازت ہے یانہیں ؟

`بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آرڈر پرسونے کے زیورات بنوانا عقدِ استصناع ہے اوریہ اُس وقت جائزہوگا، جب زیورکی جنس، نوع، وصف وغیرہ کواس طورپر بیان کردیاجائے کہ اس میں جہالت باقی نہ رہے،یونہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس زیورکی ایک معین قیمت طے کی جائے ۔لہٰذا سونے کے زیورات کاآرڈرلیتے وقت سونے کا کریٹ،اس کاڈیزائن ،وزن وغیرہ اس طورپر طے کریں کہ کسی قسم کی جہالت باقی نہ رہے اور اس زیورکی ایک معین قیمت بھی عقدکے وقت واضح اندازمیں طے کرلیں۔البتہ یہ ضروری نہیں کہ آرڈرکے وقت مکمل قیمت ادا کی جائے بلکہ باہمی رضامندی سے چاہیں تو کچھ رقم ایڈوانس لے لیں اور باقی رہ جانے والی قیمت کوادھارکرلیں ،یونہی مکمل رقم اُدھاربھی کرسکتے ہیں البتہ یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ جب کل یابعض قیمت اُدھار ہونے کی شرط پرسوداہوتو ایسی صورت میں قیمت کی  ادائیگی کامعلوم وقت طے کرناضروری ہے،ادائیگی کاوقت مجہول ہونے سے عقدفاسدہوجاتاہے۔

   مبسوط سرخسی میں سونے کی بیع استصناع کو  جائز قرار دیا گیا ہے چنانچہ امام رضی الدین سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ولو استاجر صائغا يصوغ له طوق ذهب بقدر معلوم، وقال: زد فی هذا الذهب عشرة مثاقيل فهو جائز لانه استقرض منه تلك الزيادة، وامره ان يخلطه بملكه فيصير قابضا كذلك، ثم استاجره فی اقامة عمل معلوم فی ذهب له ولان هذا معتاد فقد يقول الصائغ لمن يستعمله ان ذهبك لا يكفی لمن تطلبه، فيامره ان يزيد من عنده واذا كان اصل الاستصناع يجوز فيما فيه التعامل فكذلك الزيادة“ یعنی اگر کسی نے سنار سےاجارہ کیا کہ سنار اسے سونے کا مخصوص مقدارکا ایک ہاربنادے، اور سنار کوسونادیتے ہوئے  کہا کہ اس میں دس مثقال سونا مزید(اپنی طرف سے)اضافہ کر دوتو یہ جائز ہے کیونکہ یہ(یوں ہوگیا کہ ) اس شخص نے سنار سے اضافی سونا قرض لیا اور اسے کہا کہ اس اضافے کو میر ی ملکیت (والے سونے ) میں خلط کر دے لہٰذا اس طرح کرنے سے وہ اضافی سونے پر قابض ہو جائے گا پھر اپنے سونے میں مخصوص کام کرنے پر سنار سے اجارہ کیا ۔ نیز اس کی وجہِ جواز یہ بھی ہے کہ اس طرح کا معاملہ معتاد ہے کہ  سنار سونا استعمال کرنے والے کو کہہ دیتا ہے کہ جو چیز تم بنوانا چاہتے ہو تمہارا سونے اس کے لئے کافی نہیں ہے تو گاہک اسے کہتا ہے کہ تم اپنی طرف سے اضافی سونا ڈال دو۔ نیزجس چیز میں تعامل ہو اس میں  جب اصل استصناع جائز ہے تو زیادتی کے اندر بھی  استصناع جائز ہوگا۔(المبسوط لسرخسی، جلد14، صفحہ60،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم