Qiston Par Gari Ya Motorcycle Lene Aur Insurance Karwane Ka Hukum

قسطوں پر گاڑی یا موٹر سائیکل لینے اور انشورنس کروانے کا حکم

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1187

تاریخ اجراء: 18ربیع الثانی1445 ھ/03نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی کمپنی سے قسطوں پر گاڑی یا موٹر سائیکل خریدی جائے، تو وہ اس کی انشورنس بھی  کرواتے ہیں،پھر  اگر گاڑی چوری ہوجائے یا  جل جائےتو انشورنس کمپنی اس گاڑی یا موٹر سائیکل کی مکمل قیمت ادا کرے گی، اگرچہ انشورنس کی مد میں ابھی تک اس کی قیمت کے برابر رقم جمع نہ ہوئی ہو،  اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انشورنس کروانا حرام و گناہ  ہے اور مذکورہ صورت میں پالیسی مکمل ہونے سے پہلے گاڑی چوری ہو جانےیا جل جانے کی صورت میں اس کا کلیم کرکے انشورنس کی مد میں جمع شدہ رقم سے زائد لینا بھی جائز نہیں  کہ یہاں ضامن وہ ہے جس نے چوری کی، نہ کہ کمپنی کیونکہ کمپنی نے تو اس کا کوئی نقصان نہیں کیا۔

   مفتی اعظم پاکستان وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ہر قسم کا بیمہ ناجائز ہے۔اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جو کسی کا مالی نقصان کرے گا وہی ضامن ہو گا ، اور بقدر نقصان تاوان دے گا ، قرآن کریم میں ہے’’فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیۡکُمْ فَاعْتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیۡکُم“یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کر لو (لیکن) اسی قدر جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہو۔(سورہ بقرہ ، پارہ 2 ، آیت 194)

   لہٰذا چوری،ڈکیتی، آگ لگنے اور ڈوبنے وغیرہ کا بیمہ ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مال کا نقصان انشورنس کمپنی نے نہیں کیا تو وہ تاوان کیوں دے گی ؟“(وقار الفتاوی ، جلد 1، صفحہ 240 ، بزم وقار الدین ، کراچی)

    واضح رہے کہ آج کل جو قسطوں کا کاروبار ہوتا ہے اس میں اکثر ناجائز شرائط ہوتی ہیں ۔مثلاً: قسط شارٹ یا لیٹ ہونے کی صورت میں جرمانہ ،اسی طرح اگر ممبر اس پالیسی کو درمیان میں ختم کرنا چاہے تو کچھ فیصد کٹوتی کی جاتی ہے ، بعض جگہوں پر انشورنس کی شرط ہوتی ہے۔یہ تینوں شرائط ناجائز ہیں ،ان شرائط پر قسطوں پر کوئی چیز بیچنا،  ناجائز وگناہ ہوگا ،اگر یہ تینوں شرائط نہ پائی جائیں اسی طرح ان کے علاوہ کوئی دوسری شرط فاسد بھی نہ پائی جائے اور سودا کرتے وقت یہ طے ہوجائے کہ اس چیز کی قیمت ادھار میں دی جائے گی یا نقد میں،نیز قسط کی ادائیگی اور اس کی مدت بھی طے کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا اگرچہ ادھار پر بیچنا نقد قیمت سے زیادہ پر ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم