Qiston Ke Karobar Ka Sharai Hukum Kya Hai ?

قسطوں کے کاروبار کا شرعی حکم

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1362

تاریخ اجراء:       10رجب المرجب1444 ھ/02فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   قسطوں پر کاروبار کرنا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قسطوں کا کاروبار کرنا اور قسطوں پر بیچتے ہوئے نقد سے زیادہ قیمت میں بیچنا درجِ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ  یہ طے کر لیا جائے کہ یہ سودا نقد کیا جارہا ہے یا ادھار اور ایک بات ڈن کر کے گاہک کے ساتھ سامان کی ایک رقم مقرر (fix) کر لی جائے کہ میں یہ سامان آپ کو اتنی قیمت کا بیچ رہا ہوں اور قسطیں اور ادائیگی کی مدت بھی طے کی جائے اور پیمنٹ و قسط لیٹ ہو جانے کی صورت میں جرمانے کی شرط نہ لگائی جائے ۔ کسٹمر پر لازم ہو گا کہ وہ ہر قسط بغیر کسی تاخیر کے وقت پر ادا کرے ،بلاوجہ شرعی  قسط لیٹ نہ کرے،اوراگربیچنے والے کی رضاکے بغیر، بلااجازت شرعی تاخیرکرے گاتوگنہگارہوگا، لیکن اس سے جرمانہ لینا ، جائز نہیں ہو گا ۔ نیز اس کے علاوہ بھی کوئی ناجائز شرط جیسے انشورنس کی شرط نہ لگائی جائے ، تو یہ کاروبار کرنا ، جائز ہو گا اور اگر کوئی ناجائز شرط لگا دی جائے ، تواس ناجائز شرط کی وجہ سے سودا ناجائز ہو جائے گا ۔

   صدر الشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”بیع (سودے) میں ثمن (رقم) کا معین (fix) کرنا ضروری ہے ۔۔۔ اور جب ثمن معین کر دیا جائے ، تو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار ، سب جائز ہے ۔۔۔ مگر صورتِ مسئولہ میں یہ ضرور ہے کہ نقد یا ادھار دونوں میں سے ایک صورت کو معین (fix) کر کے بیع (سودا) کرے اور اگر معین نہ کیا ، یوہیں مجمل رکھا کہ نقد اتنے کو اور ادھار اتنے کو ، تو یہ بیع فاسد ہو گی اور ایسا کرنا ، جائز نہ ہو گا ۔ ملخصا “( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 181 ، مکتبہ رضویہ ، کراچی )

   مالی جرمانہ جائز نہیں ۔ چنانچہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقارالدین رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں : ”فروخت کرنے والے کو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ نقد کی قیمت اور رکھے اور ادھار کی قیمت اور مقرر کرے مگر شرط یہ ہے کہ ادھار کی مدت متعین کر دی جائے ۔۔۔ جتنی مدت زیادہ ہو ، اتنی قیمت زیادہ ہو سکتی ہے ۔ مگر سوال میں جو صورت بعد میں لکھی ہے کہ اگر وہ لیٹ کریں ، تو دو فصد یا چار فیصد جرمانہ لیا جائے گا ، یہ ناجائز ہے ۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز ہی نہیں ہے ۔ ملخصا “(وقار الفتاوی ،جلد3 ، ص264 ، بزم وقار الدین ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم